Homeآرٹیکلزکچھ سوالات کے جوابات، تحریر: نودبندگ بلوچ

کچھ سوالات کے جوابات، تحریر: نودبندگ بلوچ

بی ایس او آزاد کے ایک سابق رکن مرکزی کمیٹی اور بی ایل ایف کے ممبر جو عرفی شاہ زیب کے نام سے فیس بک استعمال کررہا ہے نے کچھ ایسے سوالات سامنے رکھیں ہیں جن پر ایک نظر دوڑانے سے بآسانی انکے سطحیت اور پست ذہنی صلاحیتوں کی قلعی کھلتی ہے۔ جہاں تک شاہ زیب بلوچ کے سوالات کا تعلق ہے تو سب بے بنیاد ، مضحکہ خیز اور دروغ گوئی کی مثال ہیں ،یہ اسی طرح کے جھوٹ و الزام کا تسلسل ہے جو پہلے دن سے ڈاکٹر اللہ نظر کے ہمنواوں کا شیوہ رہا ہے ، یقینی طور پر انکا جواب دینا وقت ضائع کرنا ہے لیکن میں محض اس نیت سے جواب تحریر کررہا ہوں تاکہ یہ ہمیشہ کی طرح کچھ سادہ لوح بلوچ نوجوانوں کو اسطرح بیوقوف نا بنا سکیں جو ان عناصر کا وطیرہ رہا ہے ، جس طرح ڈاکٹر صاحب نے سالوں تک قوم کو بیوقوف بنائے رکھا۔ یہاں میں ترتیب کے ساتھ شاہ زیب کے سوالات اور انکے جوابات تحریر کررہا ہوں۔
سوال:۔۔کیا ہیر بیار مری خاموش رہ کر رحمدل مری کیس سے بری ہو سکتے ہیں؟
1۔ صرف الزام لگانے سے سنگت ہیربیار پر رحمدل کا اغوائ ثابت نہیں ہوتا ، اس سے پہلے بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ڈیل کا الزام بھی بی ایل ایف نے سنگت پر لگایا تھا لیکن وہ اسے ثابت نہیں کرسکیں ہیں رحمدل کا اغوائ بھی اسی طرح کا جھوٹا الزام ہے اور بی ایل اے نے بھی رسمی طور پر اختر ندیم کے ساتھ گفتگو میں اس الزام کو رد کردیا تھا، جب تک ثبوت پیش نہیں کیئے جاتے تب تک ہم سنگت حیربیار کو مورد الزام نہیں ٹہرا سکتے ہاں جب بھی ٹھوس ثبوت پیش کیئے گیئے اور ثابت کیا گیا تو پھر بری ہونے یا نا ہونے کی بات آئے گی۔
سوال:۔کیا ہیر بیار مری فیس بک میں گالیوں کا کھیل شروع کرکے چار سالوں میں بلوچ ماوں بہنوں کی بے عزتی کا جواب دے سکتے ہیں؟
2۔ گالی دینا اور بدکلامیاں ڈاکٹر اللہ نظر کے پیروکاروں کا شیوہ ہے ، ہاں ہیربیار کے فکری دوست جو سنجیدہ بحث آگے بڑھا رہے ہیں اسکے بابت سنگت حیربیار ہو یا اسکے فکری دوست وہ ہمیشہ سے اپنے ہر بات و عمل کی ذمہ داری اٹھاتے رہے ہیں اور قوم کے سامنے کبھی بھی جواب دینے سے انکاری نہیں ہوئے ہیں ، فیس بک پر ذمہ دار دوست جو بھی الزامات لگا رہے ہیں وہ باثبوت و دلیل لگارہے ہیں جن کے پشت پر ٹھوس ذمینی حقائق ہیں اور ان الزامات کی ذمہ داری مکمل طور پر اٹھانے کیلئے تیار بھی ہیں لیکن جوابدہ قوم کو ہونگے ڈاکٹر اللہ نظر کو نہیں جس پر چوری کا الزام ثابت ہوچکا ہے اسکے ساتھ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ فیس بک پر شیمبو شیطانوں ، تیجاروں کی ذمہ داری ڈاکٹر اللہ نظر اٹھائیں گے ؟۔
سوال:۔ کیا ہیر بیار مری رحمان ملک سے ملاقات اور ا±س کے بعد بی ایل اے میں بحران پیدا کرنے کے ذمہ دار نہیں ؟
3۔بی ایل اے میں بحران پیدا کرنے کے ذمہ دار بابا خیربخش مری اور مھران مری ہیں جس کو ڈاکٹر اللہ نظر کے دوغلی پالیسی نے مزید بھڑکایا ، اس بابت جوابدہ ہونا دور کی بات ہے سب سے پہلے اس بحران کو 2009 میں ہیربیار نے ہی قوم کے سامنے عیاں کیا تھا اور وہ یقیناً کبھی بھی پورے صورتحال کو قوم کے سامنے لانے کو تیار ہونگے جہاں تک رحمان ملک سے ملاقات کی بات ہے یہ ملاقات جان سلوکی کے اغوائ کے بابت ایمنسٹی انٹرنیشنل کے درخواست پر ہوا تھا جس میں سنگت حیربیار نے بلوچ نمائیندوں کے نام رحمان ملک کو دیئے تھے نمائیندوں میں ذاکر مجید ، شہید واجہ وغیرہ شامل تھے اور اس ملاقات کے بابت سنگت حیربیار نے خود ہی قوم کو ایک ٹی وی پروگرام کے ذریعے آگاہ کیا تھا جنگی حالت میں ایسے ملاقات معمولی بات ہے اور جنگ کا حصہ ہوتا ہے۔
سوال:۔ کیا سلیمان داود جو ہیر بیار مری کا اچانک دست راست بن گیا وہ مذہبی شدت و فدائین کا دھمکی دیکر اب بھی ہیر بیار کے پیارے نہیں ، جو ان کی طالبان پسندی یا پاکستان مذہبی شدت پسندوں کا تعلق کا اشارہ نہیں ؟
4۔سلیمان داود سے ہیربیار کا تعلق نا دست راست کا ہے اور نا ہی تنظیمی ہے انکے بیچ کا تعلق محض وہ ہے جو دو آزادی پسندوں کے بیچ میں ہوتا ہے ، سلیمان داود کے شدت پسندوں سے تعلق کے بابت آج تک کسی قسم کے شواہد منظر عام پر نہیں آئے ہیں جس دن سلیمان داود میں کوءبے ایمانی ظاھر ہوا تو پھر سنگت حیربیار یقیناً اس سے اسی طرح دور ہوجائیں گے جس طرح اللہ نظر اور اپنے بھاءمھران مری کے بے ایمانیاں دیکھنے کے بعد سنگت ان سے دور ہوگئے تھے۔
سوال : کیا مڈی کے نام پر رچایا گیا ڈرامہ اور بلوچ قوم پرستوں کے خلاف زہر افشانی کا ذمہ دار ہیر بیار نہیں ؟
5۔ مڈی پر نا کوءڈرامہ رچایا گیا اور نا کسی کے خلاف زھر افشانی کی گءہے ، ہاں کچھ سزا یافتہ چوروں نے بلوچ مڈی پر قبضہ کرکے انہیں ھزار خان کو بیچنا شروع کیا تو انکو روکنے اور انکے محاسبے کا اور آزادی پسندی کا نقاب اوڑھ کر بلوچ تحریک کا رخ موڑنے کی کوشش کرنے والوں کے چہرے سے پردہ ہٹانے کا ذمہ دار فخریہ طور پر حیربیار مری اور اسکے فکری دوست ہیں ، جس سے نا کبھی انکار تھا اور نا کبھی انکار رہے گا بلکہ اس امر پر ہم فخر کرتے ہیں کہ قومی مفادات کے سامنے سنگت حیربیار اور اسکے فکری رفیقوں نے مصلحت پسندی کے بجائے اصولوں کو اپنایا۔
سوال:۔کیا ماما قدیر کو دھمکی دینے والے ہیر بیار کے سپورٹر نہیں ؟
6۔سنگت ہیربیار یا اسکے فکری رفیقوں میں سے کسی نے کبھی بھی ماما قدیر کو دھمکی نہیں دی ہے اور دھمکی دینگے بھی کیوں؟ ہاں ماما قدیر بلوچ تحریک کا ایک ادنیٰ سا حصہ ہیں اگر انکی طرف سے کوءایسا عمل سامنے آیا جس سے تحریک کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو اس بابت کھلے بندوں میڈیا میں بلوچ عوام کے آگاہی کیلئے لکھا ضرور جائے گا کیونکہ کوءبھی شخصیت ہو یا تنظیم وہ قومی تحریک سے برتر و اعلیٰ نہیں ہے۔
سوال:۔کیا استاد تالپور کی شان میں غلیظ باتیں کرنے والے ہیر بیار کے دوست نہیں؟
7۔محمد علی تالپور نے کوءایسا کردار ہائے نمایاں قومی تحریک میں ادا نہیں کیا ہے جس سے انہیں تقدیس و مبراءحاصل ہو ، 73 کے وقت بہت سے نوجوانوں کی طرح وہ بھی سوشلزم کی چاہ میں لندن گروپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شریک ہوئے تھے لیکن پھر جس جوش سے آئے تھے اسی طرح خاموش ہوکر خیربخش کے بجائے ھزار خان بجارانی کی حمایت کرکے واپس چلے گئے تھے ، اسلیئے انکے ” شان ” والا لفظ مناسب نہیں ہاں بالکل اس پر تنقید کیا گیا ہے اور کیا جاتا رہے گا کیونکہ ایک طرف وہ آج تک ہزار خان بجارانی کا دفاع کرنے والا اسکا ساتھی ہے ، اس بابت گواہان موجود ہیں جہاں وہ بی ایس او کے کارکنوں کو لیکچر دیتے ہوئے ھزار خان کا دفاع کرتے ہیں اور اسکا لیڈر ثابت کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ بلوچ تحریک میں مشکوک پنجابی سوشلسٹوں کو جگہ فراہم کررہے ہیں جس کی وجہ سے سرفیس سیاست کا رخ واضح طور پر آزادی پسندی سے انسانی حقوق کی طرف موڑ دیا گیا ہے اور کراچی میں پنجابی نام نہاد سوشلسٹ بی ایس او کے اسٹیج پر آکر انسانیت کی تقریریں کرتے ہیں۔ اس بابت میرتالپور سے سوالات ہوتے رہیں گے وہ ان سوالات کو اپنی شان کی گستاخی سمجھتے ہیں تو ہزار بار سمجھیں کیونکہ غیر محسوس انداز میں تحریک کا رخ موڑنا اس وقت تحریک کیلئے ریاستی جبر سے بھی بڑا خطرہ ہے۔
سوال:۔ کیا نواب مری کو بڈھا، پاگل، قبائلی جاہل کہنے والے ہیر بیار کے مرید نہیں؟
8۔ ہیربیار کے فکری دوست سیاسی اختلافات رکھتے ہیں لیکن انکے واضح کردار و گفتار سے یہ ثابت ہے کہ انکی طرف سے ہمیشہ دلائل پر مبنی مضامین آئے ہیں جن میں کبھی کبھی سخت باتیں ضرور کیئے گئے ہیں لیکن انکی وجہ تلخ حقائق ہیں جن کا بیان ہی کچھ لوگوں کو پڑھنے سے ہی گراں گذرتا ہے ، نواب مری ایک انسان تھے ان سے اپنے زندگی میں خاص طور پر آخری عمر میں ایسے غلطیاں سرزد ضرور ہوئے جن کی ان سے توقع نہیں کی جاتی تھی جن میں سرفہرست ایک تنظیم کے توڑنے پر خاموش حمایت تھی بابا مری نے تحریک میں ایک واضح کردار ادا کیا لیکن قومی تحریک و قومی آزادی سے کوءبھی شخص زیادہ مقدس نہیں ان کے غلطیوں پر سوال اٹھایا گیا ہے اور روایتی احترام و رتبے کی پرواہ کیئے بغیر تنقید بھی کی گءہے اور کی جاتی رہے گی لیکن بابا مری کو کبھی بھی بڈھا اور پاگل جیسے لفظوں سے مخاطب نہیں کیا گیا ہے لیکن بالکل بابا مری کو قبائلی اسکے زندگی میں بھی کہتے رہیں ہیں اور رحلت کے بعد بھی کہتے رہے ہیں کیونکہ ان کے ذہنیت پر قبائلیت کے گہرے نقوش تھے اور بابا مری کے انہی قبائلی رجحانات نے تحریک کو نقصان بھی پہنچایا ، جب اس قوم اور تحریک کے خاطر ایک سیاسی کارکن اپنے گھر میں بیٹھے بابا کا خیال نہیں رکھتا اور اسے چھوڑ کر جان قربان کرنے آجاتا ہے تو پھر اسی تحریک کے آگے ایک سیاسی بابا (بابامری) کو اسکے غلطی پر وہ کیونکر کھلی چھوٹ دے؟۔
سوال:کیا واحد قمبر کی پاک دامن بیوی کو غلیظ گالیاں (جنہیں میں یہاں دوبارہ بیان نہیں کر سکتا) دینے والوں کو ہیر بیار کی حمایت حاصل نہیں ؟
9۔ واحد قمبر کے گھروالی کے بابت کبھی بھی غلیظ الفاظ کا استعمال نہیں ہوا ہے اور نا ہی گالیاں دینا ہیربیار اور اسکے فکری دوستوں کا شیوہ ہے ، البتہ واحد قمبر ایک سیاسی کارکن ، جہد کار اور لیڈر ہیں اور ایک لیڈر کی کوءذاتی زندگی نہیں ہوتی کیونکہ اسکا ہر عمل اور فعل کا اثر تحریک پر اثر انداز ہوتا ہے اسکا ہر عمل ایک روایت بناتا ہے اسی لیئے اگر اسکے کسی بھی عمل پر سوال اٹھانا ہر ایک سیاسی کارکن کا حق ہے ، واحد قمبر کے شادی کے بابت یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ بانک فریدہ اور انکا استاد و شاگرد ، لیڈر و کارکن کا رشتہ تھا اور بانک فریدہ ان سے جیل میں بطور سیاسی کارکن ملنے جاتے تھے اور سیکھنے کی کوشش کرتے تھے لیکن جس طرح استاد و شاگرد کے اس رشتے کو ذاتی تعلق ، پھر شادی میں تبدیل کیا گیا اور بعد ازاں سیاسی طور پر متحرک بانک فریدہ سیاسی منظر نامے سے غائب ہوگئی ، اس بابت یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگر اسی طرح ہوتا گیا تو کون ہم پر بھروسہ کرکے اپنی بیٹیاں تحریک میں کام کرنے کیلئے روانہ کرے گا؟ ، اگر ہم عمر ہوتے تو الگ بات تھی لیکن واحد قمبر کا شادی شدہ ہونا اور عمر میں فرق باپ اور بیٹیوں کا ہونا سوالات جنم دیتا ہے۔
سوال:کیا بانک کریمہ کو ہوٹلوں کی مستیاں کرنے والی کہہ کر ہیر بیار کے گروہ نے بلوچیت کا لاج رکھا؟
10۔ بلوچ سیاست جنسی تفریق سے بالاتر ہے اگر کوءبلوچ خاتون کسی ذمہ دار عہدے پر پہنچتی ہے تو اسکا مطلب اسے جنسی طور پر برابر سمجھا جاتا ہے پھر جس طرح ایک بلوچ مرد سربراہ پر سوال ہوسکتے ہیں اسی طرح ایک بلوچ خاتون سربراہ پر سوال اٹھائے جاسکتے یہں ، کوءبرابری کے بنیاد پر سربراہ بننے کے بعد اپنے خاتون ہونے کے بنا پر بری الذمہ نہیں کہلایا جاسکتا ، اگر کوءخاتون ہونے کے ناطے کسی بہن کیلئے الگ مقام کا مطالبہ کریں اور انہیں تقدیس کے لبادے میں اوڑھ کر سوالات سے مبرا قرار دے تو سب سے پہلے وہ شخص تحریک کے اندر جنسی امتیاز پیدا کررہا ہوتا ہے کیونکہ یہ برابری کے قانون کے خلاف ہے اسی تناظر میں ضرور بانک کریمہ سے سوالات پوچھے گئے ہیں کیونکہ وہ بی ایس او کے اس وقت قائم مقام چیئرمین ہیں اور پوچھے جاتے رہیں گے ، بانک کریمہ کو ہوٹلوں میں مستیاں کرنے والا کبھی نہیں کہا گیا ہے بلکہ ایک دفعہ سلام صابر نے بانک کریمہ کو کہا تھا کہ ” تم جاو نورمریم کے ساتھ ہوٹلوں میں مزے کرو” اسکا پس منظر یہ ہے کہ جب زاھد بلوچ کے اغوائ کے بعد کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال کا ڈرامہ رچایا گیا تھا اس وقت لطیف جوھر کو بھوک ہڑتال پر بٹھا کر بانک کریمہ صدر کے ہوٹلوں میں نور مریم ( پنجابی سوشلسٹ) کے ہمراہ چائے و برگر سے لطف اندوز ہوتے اور قہقہے لگاتے دیکھی جاسکتی تھی جو بھوک ہڑتال کے دوران انکے غیر سنجیدگی کی عکاسی کرتی تھی۔
سوال:۔ریکوڈک کرپشن کا کیس سامنے آنے کے فوراََ بعد محمود خان اچکزئی کا ہیر بیار مری سے خفیہ ملاقات چے معنیٰ دارد ؟
11۔ محمود اچکزءسے ملاقات اسلیئے ہوا تھا کیونکہ وہ حیربیار کے والد کے تعزیت پر آئے تھے اور بلوچی روایات کے تحت انکے فاتحے کی درخواست کو رد نہیں کیا گیا ، ریکوڈک کمپنی سے حیربیار کا کوءتعلق نہیں بالفرض اگر ہوتا تو ہیربیار اپنے گھر پر 5 لوگوں کے سامنے محمود خان سے نہیں ملتے اور وہ بھی 10 منٹ کیلئے ، کسی کو ڈیل کرنا ہوتا ہے تو اسکی باتیں کبھی میڈیا میں نہیں آتے۔
سوال:۔ کچھ سال پہلے پشتونوں کو بلوچوں کا قاتل اور آج محمود خان کو محکوم و مظلوم قرار دینا چے معنیٰ دارد؟
12۔ محمود خان کو مظلوم قرار نہیں دیا گیا ہے بلکہ پشتون قوم کو مظلوم کہا گیا ہے اور بلوچستان کے مظلوم پختونوں کا بدقسمتی سے نمائیندہ وہ ہیں تو اس بابت اسے ہی مظلوم قوم کا نمائیندہ کہا جائے گا۔
سوال:۔ سوشل و پرنٹ میڈیا میں بلوچ جہد کاروں کے نام اور راز ہیر بیار گروہ نے فاش نہیں کئے ؟
13۔ سوشل میڈیا پر کسی بھی ایسے شخص کا نام ہیربیار کے فکری رفیقوں نے ظاھر نہیں کیا ہے جو پہلے سے ظاھر نا ہو ، اس بابت الزام بی ایس او کے قیادت کے ناموں کے حوالے سے لگایا جاتا ہے حقیقت یہ ہے کہ بی ایس او کی قیادت شوق لیڈری اور سیاسی نابالغی کی وجہ سے جھاو کے جلسے ، تربت کے جنرل باڈیوں اور بی بی سی کے انٹرویو میں ظاھر ہوئے ایک بار ظاھر ہونے کے بعد انکے نام بالکل لیئے گئے ہیں۔
سوال :۔ یو بی اے کے سرمچاروں کو شہید و اغوا نہیں کیا گیا ؟
14۔ یو بی اے میں بی ایل اے کے کچھ سزا یافتگان ہیں جنہوں نے بی ایل اے کے جمع کردہ قومی مڈی پر قبضہ کرکے اسے بلوچ قومی غدار ھزار خان بجارانی کو بیچنا شروع کردیا تھا اسی لیئے قومی مڈی کو واپس قومی تحویل میں لینے کیلئے بی ایل اے نے پیش قدمی کی ، اس بابت بی ایل اے کا پالیسی واضح ہے کہ کسی پر فائر نہیں کیا جائے گا لیکن قومی مڈی کو واپس قومی تحویل میں لینے کے سامنے کوءرکاوٹ بنتا ہے اور حملہ آور ہوتا ہے تو یقیناً اپنے دفاع میں گولیوں کے جواب میں گولیاں ہی چلتی ہیں یہ بھی واضح رہے پیش قدمی سے پہلے بی ایل اے نے ان چور عناصر کو کافی مہلت بھی دی تھی کہ وہ پرامن طریقے سے قومی مڈی واپس کردے لیکن واپسی کے اس مطالبے کے بعد وہ مزید تیزی سے اسے بیچنے میں لگ گئے ، پیش قدمی کے دوران یو بی اے کے باقی لوگ بھاگ گئے لیکن چار نے ہتھیار ڈال کر گرفتاری دی جو ابھی تک بحفاظت بی ایل اے کے تحویل میں ہیں جن پر قومی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے اگر بے گناہ ہوئے تو بہت جلد رہا ہونگے باقی ہمارے معلومات کے مطابق اس مقابلے میں یو بی اے کا کوءفرد مارا نہیں گیا تھا ایک کے زخمی ہونے کی آخری اطلاعات تھی وہ بھی زخمی اسلیئے ہوئے کیونکہ انہوں نے پہلے فائرنگ شروع کردی تھی جس پر جوابی فائرنگ کی گءتھی، جہاں بھی بلوچ قومی مڈی کو دشمن کے ہاتھوں بیچا جائے گا تو یقیناً ایک ذمہ دار قومی تنظیم کے حیثیت سے بی ایل اے انہیں روکنا اپنا فرض سمجھے گا ، شروع سے ہی بی ایل اے کی واضح پالیسی دیکھنے میں آءہے کہ قومی مفادات کی تحت کسی بھی تنظیم کو مالی ، عسکری اور اخلاقی مدد فراہم کی جاتی ہے جس طرح قومی مفادات کے تحت کسی تنظیم یا گروہ کو مضبوط کرنا بی ایل اے کی ذمہ داری ہے تو پھر اسی طرح قومی مفادات کو نقصان دینے والے کسی تنظیم کو روکنا بھی اسکی ذمہ داری بنتی ہے اور اب تک دیکھنے میں آیا ہے کہ بی ایل اے یہ دونوں فرائض احسن طریقے سے ادا کرتا آرہا ہے۔
سوال:۔کیا چند لکھاریوں کو بلوچ رہبروں کی کردار کشی کا ٹھیکہ دینے والا ہیر بیار مری نہیں؟
15۔ ہیربیار نے کسی شخص کو رسمی طور پر یہ ذمہ داری نہیں دی ہے کہ وہ قومی مسائل پر لکھے لیکن حیربیار مری قومی مسائل پر بات کرنے ، ان پر بحث کرنے اور کمزوریوں پر روشنی ڈالنے کو ایک حوصلہ افزائ اور سیاسی عمل سمجھتے ، اور اس کی روایت بلوچ قومی تحریک میں انہوں نے ہی ڈالی ہے، اسلیئے کسی پر پابندی بھی نہیں ہے لہٰذا ان سے فکری طور پر جڑے دوست اپنا یہ آزادی استعمال کرکے قومی مسائل پر کھلم کھلا بولتے اور لکھتے ہیں۔
سوال:۔ نواب خیر بخش مری کی بیوہ کی شان میں گستاخی کرنے والے یہی بندے نہیں تھے ؟
16۔ حیرت انگیز طور پر ڈاکٹر اللہ نظر کے پیروکار سوال کو ہمیشہ گستاخی سمجھتے ہیں شاید یہ بی ایل ایف کے پالیسیوں کا حصہ ہو ، نواب خیربخش مری کے زوجہ اور سنگت حیربیار مری کے والدہ کا تعلق بلوچ قومی تحریک سے نہیں ہے اس لیئے انکے خلاف غلط بات کرنا کجا ان کے بابت کوءسوال تک نہیں پوچھا گیا ہے ہاں اگر وہ قومی تحریک کا اگر کوءذمہ دار ہوتیں تو سنگت حیربیار کے والدہ محترمہ سے بھی ضرور سوال کیا جاتا۔
سوال:۔کیا اکیلے چارٹر بنا کر آمریت و ڈکٹیٹرشپ کا اعلیٰ نمونہ پیش نہیں کیا گیا ؟ کیا چارٹر کو نہ ماننے والوں کو گالیاں نہیں دی گئیں ؟
17۔ چارٹر کو یکم مارچ 2014 کو سامنے لایا گیا لیکن اس سے دو سال پہلے چارٹر کا نامکمل مسودہ تیار کرکے بلوچ سیاست کے تمام اسٹیک ہولڈروں کو پہنچایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ وہ آزادی اور جمہوریت کے علاوہ تمام شقوں میں تبدیلی اور ترمیم لاسکتے ہیں ، اس سے زیادہ جمہوری رویہ اور کچھ نہیں ہوسکتا باقی ماندہ پارٹیوں اور انکے سربراہوں پر بعد ازاں اس لیئے سوال اٹھایا گیا کیونکہ انہوں نے ایک قومی چارٹر اپنانے کے بجائے اپنے گروہی منشوروں کو ترجیح دی جو قومیت کی نفی اور گروہیت کا فروغ تھا جو قومی مفادات کے تحت منفی رجحان تھا لہٰذا اس قابل تنقید عمل پر تنقید کی گئ۔
سوال:۔کیا بی ایس او آزاد کو دولخت کرنے کیلئے کانسٹیٹیوشنل بلاک کا ذمہ دار ہیر بیار گروہ نہیں ؟
18۔ بی ایس او آزاد ابھی تک دو لخت نہیں ہوا ہے کانسٹی ٹیوشنل بلاک بی ایس او آزاد کا وہ حقیقی چہرہ ہے جسے بانک کریمہ اور اسیر زاھد بلوچ دھندلا کرکے بی ایل ایف کا پاکٹ آرگنائزیشن بنانا چاہ رہے تھے۔ کانسٹی ٹیوشن بلاک بی ایس او آزاد کے اکثریتی کارکنوں کا وہ فارورڈ بلاک ہے جو بی ایس او آزاد کے یرغمال کرنے کے خلاف آواز اٹھاتے رہے تھے بار بار نظر انداز کرنے کی وجہ سے پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہوئے بالآخر انہوں نے غیر قانونی مرکز کا بائیکاٹ کرکے اپنے طور پر بی ایس او آزاد میں ہی کام شروع کردیا ، بلاک بی ایس او آزاد ہی ہے بس وہ موجودہ مرکزی قیادت کو غیر قانونی اور نا اہل قرار دیکر مرکزی کے بغیر زونل سطح پر کام کررہی ہے ، بی ایس او آزاد کانسٹی ٹیوشنل بلاک سے ہیربیار کے فکری دوستوں کا بس اتنا تعلق ہے کہ دونوں اس فکر کی حمایت کرتے ہیں کہ بی ایس او کو بطور طلبائ تنظیم آزاد ہونا چاہئے کسی گروہ کا پاکٹ نہیں ہونا چاہئے اسکے علاوہ باقی کسی قسم کا کوءتعلق نہیں۔
سوال :۔ کیا بی ایل اے کو توڑنے میں ہیر بیار و اس کے دوستوں کی غلط پالسییاں نہیں، جن سے دلبرداشتہ ہوکر نواب مری نے یو بی اے بنا کر ہیر بیار مری کی کرتوتوں کو وار لارڈ نہیں کہا ؟
19۔ بی ایل اے کو توڑنے میں مھران مری ملوث ہیں جنہوں نے لاکھوں کی کرپشن کی تھی جب ان سے حساب مانگا گیا تو انہوں نے ایک نوابزادہ ہونے کی حیثیت سے حساب دینے سے انکار کردیا اور بعد ازاں اسی احتساب سے بھاگ کر بی ایل اے کے کچھ سزا یافتہ اور فارغ التحصیل کمانڈروں کو ملا کر یو بی اے بنادیا اور نواب مری نے لاڈلے بیٹے اور روایتی کمانڈروں کو خوش رکھنے کیلئے چپ سادھ لیا جو انکا تاریخی جرم ہے ، بابا مری حیربیار سے اسلیئے ناراض ہوگئے کیونکہ بابا مری نے انہیں چھوٹے بھاءکو معاف کرنے کا کہا تھا اور سنگت نے کہا تھا کہ تحریک میں کوءنوابزادہ اور بھاءنہیں سب برابر ہیں اور کسی کا بھی احتساب ہوسکتا ہے، بابا مری جانتے تھے کہ مھران غلط ہے وہ بس انہیں خوش رکھنا چاہتے تھے اگر انہیں مھران صحیح لگتا تو وہ یوبی اے نہیں بناتے بلکہ وہ بی ایل اے پر دعویٰ کرتے۔
سوال:۔ کیا نواب مری نے بقول ِ بشیر زیب ، اسلم بلوچ کو پہچاننے سے انکار نہیں کیا تھا ؟ ہاں کیا تھا۔۔۔ وہ کیوں۔۔۔ کیا بشیر زیب ، اسلم یا ہیر بیار کو وجہ نہیں پتا؟
20۔ اس بات کا ذکر بشیر زیب نہیں بلکہ اسلم بلوچ نے خود اپنے ایک آرٹیکل میں کیا تھا جہاں انکا اشارہ یہ تھا کہ بابا مری شروع سے مری کمانڈران اور غیر مری کمانڈران جنہیں وہ ہیربیار کا دوست کہہ کر پکارتا تھا ان میں تفریق رکھتے تھے ، اس واقعے کے تذکرے کا مقصد یہ ہوسکتی ہے کہ ان رجحانات اور رویوں کو سامنے لائے جو شروع سے اندر پنپ رہے تھے جو بعد ازاں یو بی اے کے بننے پر منتج ہوئے۔
بحث مباحثہ ایک صحت مند اور جاندار سیاسی ماحول کا عکاس ہوتی ہے ، جو سیاسی جمود کو توڑ کر ایک روانی پیدا کرتی ہے اور یہی روانی بہتے پانی کی طرح اپنے اندر گندگی جمع ہونے نہیں دیتی ، فیس بک پر حیربیار سے فکری طور پر جڑے دوستوں کے لکھنے کا آغاز کا مقصد بھی یہی ہے اور ہمیشہ سامنے سے سوالات اور مثبت مباحثہ کو خوش آمدید کہا گیا ہے اور ایسے رجحان کو عام کرنے کی کوشش کی گءہے لیکن بدقسمتی سے سامنے کی طرف سے ہمیشہ سوالات کو توہین اور تنقید کو غداری قرار دیکر طوفانِ بدتمیزی برپا کیا جاتا رہا ہے کیونکہ سیاسی ماحول کے اس روانی سے ہمیشہ کچھ عناصر کو خوف ہوتا ہے کہ وہ گندگی طرح صاف ہوجائیں گے۔

Exit mobile version