گذشتہ دنوں بلوچ ریپبلکن پارٹی کے سربراہ اور نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے براہمدغ بگٹی نے عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے نا صرف اپنے سابقہ سخت موقف سے انحراف کرتے ہوئے مذاکرات کیلئے پاکستان کے ایجنڈے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے بلکہ بین السطور اپنے آزادی کے مطالبے سے بھی دستبرداری کا عندیہ دیا ہے ۔ اس انٹرویو کے بعد نا صرف بلوچ آزاد پسند حلقوں بلکہ پاکستانی میڈیا میں بھی کھلبلی مچ گئی ، خاص طور پر پاکستانی الیکٹرانک میڈیا اس خبر کو پورا دن بریک کرتے ہوئے ایک دوسرے کو بلوچ تحریک کے خاتمے کے بابت مبارک بادیں دیتے ہوئے نظر آئے اور دوسری طرف بلوچ آزادی پسند حلقوں میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیالیکن اس سارے صورتحال میں ایک سوال شدت کے ساتھ سر اٹھاتی ہوئی نظر آئی کے کیا واقعی براہمدغ بگٹی کو بلوچ تحریک آزادی میں اتنی کلیدی حیثیت حاصل ہے کہ ان کی پسپائی بلوچ قومی تحریک آزادی کی پسپائی تصور کی جاسکے ؟۔ بلوچ آزادی پسند تجزیہ کاروں اور مبصرین کے مطابق پاکستانی میڈیا میں براہمدغ بگٹی کے بابت جو رائے پائی جاتی ہے وہ محض مفروضات اور کم علمی پر مبنی ہے ، پاکستانی میڈیا بلوچستان کے حقیقی حالات کے بارے میں علم نہیں رکھتی بلوچ تحریک کے بابت ان کا گمان ہے کہ شاید یہ نواب اکبر خان بگٹی کے شہادت کے بعد شروع ہوئی اس لیئے وہ ہمیشہ سے براہمدغ بگٹی کے کردار اور حیثیت کو مبالغہ خیزی سے پیش کرتے ہیں ، حقیقت میں بلوچ قومی تحریک نواب اکبر خان بگٹی کے شہادت اور براہمدغ کے تحریک میں شامل ہونے سے کئی سال پہلے بلوچ لبریشن آرمی کے قیادت میں شروع ہوئی تھی ، براہمدغ خان موجودہ تحریک کے سات سال گذرنے کے بعد اسکا حصہ بنے ، نا براہمدغ اس تحریک کے آغاز کرنے والے ہیں اور نا آج تحریک اسکے کندھوں پر کھڑی ہے بلکہ اس تحریک کا آغاز کرنے والے بلوچ لبریشن آرمی آج بھی مزاحمتی تنظیموں میں سب سے کلیدی اور فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے ، بلوچ مزاحمتی تنظیموں میں بی ایل اے اور مبینہ طور پر اسکے سربراہ حیربیار مری کو بلوچ آزادی پسندوں میں سب سے سخت گیر تصور کیا جاتا ہے جو جنہوں نے پاکستان سے مذاکرات کیلئے آزاد بلوچستان اور پاکستانی فوج کے انخلاء کی شرط رکھی ہوئی ہے۔ دوسری طرف میڈیا میں ہائی لائٹ ہونے کے باوجود براہمدغ بگٹی کا درحقیقت بلوچ قومی تحریک میں اتنا بڑا حصہ نہیں خاص طور پر اپنے سیاسی غلطیوں کی وجہ سے وہ سیاسی حوالے سے بلوچ سیاست پر اثر و رسوخ کھوچکے ہیں ، اسلیئے تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر وہ آزادی پر سمجھوتہ بھی کرتے ہیں تو بلوچ تحریک پر اس سے کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا اور یہ تحریک اپنے مکمل شدت کے ساتھ جاری رہے گی ۔ دریں اثناٗ براہمدغ بگٹی کے مذکورہ بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مختلف بلوچ سیاسی پارٹیوں جیسے کے بلوچ سالویشن فرنٹ اور مزاحمتی تنظیم بی ایل ایف نے براہمدغ کے اس بلا مشروط مذاکرات اور آزادی سے دستبرداری پر شدید نقطہ چینی کی ہے ۔ تاہم اس شدید نقطہ چینی کے باوجود براہمدغ بگٹی یا انکے پارٹی کی طرف سے اب تک کوئی بھی وضاحتی بیان میڈیا میں نہیں آیا ہے جس سے بلوچ آزادی پسند حلقوں میں یہ خیال تقویت اختیار کرتا جارہا ہے کہ براہمدغ بگٹی اب نفسیاتی تھکن کی وجہ سے جنگ سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں ، اس پسپائی کے بابت مختلف بلوچ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواب صاحب کے شہادت کے بعد انہیں جو پذیرائی حاصل ہوئی وہ اس عوامی قوت کو ادارجاتی شکل میں ڈھال کر بلوچ قومی تحریک آزادی کے حق میں استعمال کرنے میں ناکام رہے اور سیاسی معاملات کو قبائلی طرز پر چلاتے رہے اس وجہ سے وہ تنظیمی طور پر اندر سے شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے اور بلوچستان کے تعلیم یافتہ آزادی پسند طبقہ ان سے بتدریج کنارہ کش ہوکر دوسرے آزادی پسند تنظیموں میں شمولیت اختیار کرچکی ہے ۔ بلوچستان کے معروضی حالات اور حقیقی صورتحال کو دیکھ کر یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ براہمدغ بگٹی کے ممکنہ پسپائی سے بلوچستان کے صورتحال خاص طور پر بلوچ آزادی پسند قوتوں کے شدت میں کوئی بھی خاطر خواہ کمی نہیں آئے گی ۔