کوئٹہ (ہمگام نیوز) جبری طور اغوا شدہ طالب علم نصیر بلوچ کی اہلیہ زبیدہ بلوچ اپنی بچوں کے ساتھ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں احتجاج پر بیٹھ گئی ہیں، نصیر بلوچ کو گزشتہ سال کراچی سے خفیہ اداروں اور رینجرز نے زبردستی حراست میں لے کر جبری اغوا کیاگیا تھا ،آج ایک پریس کانفرنس سے انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا نصیر بلوچ کی عدم بازیابی تک ان کا دیگر لواحقین کے ساتھ احتجاج جاری رہے گا ۔
تفصیلات کے مطابق آج وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں نصیر بلو چ کی اہلیہ زبیدہ بلوچ کی طرف سے بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ نے پریس کانفرنس پڑھ کرسنایا ۔
زبیدہ بلوچ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ میرے شوہر نصیر بلوچ کو کراچی کے علاقے یونیورسٹی روڈ سے 15نومبر 2017 کو ثناء اللہ بلوچ،حسام بلوچ اور رفیق بلوچ کے ہمراہ رینجرز اور سادہ وردیوں میں ملبوس سیکیورٹی اداروں نے اٹھا کر جبری طور اغوا کردیا۔آج اس واقعے کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن میرے شوہر اور ان کے دوستوں کو منظر عام پر نہ لایا گیا اور نہ ہی ان کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات دی جارہی ہیں۔مجھے اپنی شوہر اور ان کے دوستوں کی زندگی کے حوالے سے شدید تحفظات لاحق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک سال کا عرصہ کسی شخص کو غیر قانونی طور پر حبس بے جا میں رکھنا بذات خود ایک غیر قانونی عمل ہے۔ میری شوہر نصیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعد ہمارے بچوں کی کیا حالت ہے وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ میری بیٹی جس کی عمر بمشکل 6 سال ہوگی وہ ہر وقت پوچھتی رہتی ہے کہ بابا کب آئیں گے میرے پاس اسکو جواب دینے کے لئے سوائے سسکیوں کے کچھ بھی نہیں۔ میں کس طرح ان معصوم بچوں کومطمئن کرو کہ ان کے بابا کب آئیں گے۔
زبیدہ بلوچ نے کہا میں اس واقعے کی چشم دید گواہ ہو میرے سامنے رینجرز اور سادہ وردیوں میں ملبوس کئی سیکورٹی اہلکاروں نے میرے شوہر نصیر بلوچ، ثنااللہ بلوچ، حسام بلوچ اور رفیق بلوچ کو غیر قانونی طور پر لاپتہ کردیا جسکی اجازت دنیا کا کوئی بھی قانون نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا اس جبری گمشدگی کے خلاف ہم نے متعدد بار درخواست جمع کروائی کہ ایف آئی آر سندھ رینجرز کے خلاف درج کی جائے۔کافی تذلیل اور تکالیف کے بعد بمشکل ایف آئی ار درج کیا،جبکہ کراچی پریس کلب کے سامنے ہمیں پریس کانفرنس کرنے سے روکا گیا مجبور ہو کر پریس کانفرنس ہمیں پریس کلب کے باہر فٹ پاتھ پر کرنی پڑی۔ میں نے کراچی، کوئٹہ میں اپنی شوہر کی بازیابی کے لئے احتجاجی مظاہرے اور پریس کانفرنس کی لیکن آج ایک سال کا طویل عرصہ گزرچکا ہے۔ لیکن ہمیں نصیر بلوچ کے حوالے کسی قسم کی معلومات نہیں دی جارہی۔
زبیدہ بلوچ نے کہا نصیر بلوچ اور ان کے دوستوں کا اگر کسی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا ثبوت آپکے پاس ہے تو اسے منظر عام پر لاکر سزا دیں یوں لاپتہ کرنا خاندان کے لوگوں کے لئے سخت اذیت کا باعث ہیں۔
میں زبیدہ بلوچ آج اس پریس کانفرنس میں یہ اعلان کرتی ہو کہ میرے شوہر کی عدم بازیابی کے خلاف وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے کیمپ میں پانچ روزہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھو گی اور جب تک میرے شوہر اور دیگر لاپتہ بلوچ افراد بازیاب نہیں ہوتے ہمارے احتجاجوں کا یہ سلسلہ نہیں رکھے گا بلکہ مزید وسعت اختیار کرتا جائے گا۔
پانچ روزہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کے دوران شبیر بلوچ کی فیملی کے ہمراہ وزیر اعلی ہاؤس کے سامنے دھرنا بھی دوں گی اور یہ دھرنا نصیر بلوچ، ثناہ اللہ، حسام بلوچ، رفیق بلوچ اور شبیر بلوچ اور دیگر لاپتہ بلوچوں کی عدم بازیابی تک جاری رہے گا۔ میں اس پریس کانفرنس کے توسط سے تمام انسانی حقوق کے اداروں، سول سوسائٹی، پروفیسرز،وکلا، ڈاکٹرز، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں اور طالب علموں سے اپیل کرتی ہو کہ وہ
بلوچستان میں انسانوں کی جبری گمشدگی کے خلاف جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں کیونکہ اس انسانی مسلئے کے حل کے بغیر بلوچستان میں امن و سلامتی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
معزز صحافی حضرات!
میں اپنے پریس کانفرنس کے آخر میں آپ سے بھی اپیل کرتی ہو کہ خدارا بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر چپ کا روزہ توڑ کر متاثرہ خاندان کی مدد کرکے اپنے پیشے سے انصاف کریں۔ کیونکہ صحافت کا پہلا اصول غیر جانبداری کے ساتھ عوام کی فلاح و بہبود کا فریضہ سر انجام دینا ہے نہ کہ خوف کا شکار ہو کر جانبدارانہ بنیاد پر تشہیر کرنے کی جدوجہد کریں۔
لاپتہ بلوچ اسیران کے لواحقین سے پی ٹی ایم کے رہنما ملا بہرام نے اظہار خیال کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے اور انہوں نے پاکستان کومخاطب کرتے ہوئے کہا ڈالر تم لیتے ہو ،نقلی جہاد تم کرتے ہو اور غدار ہم پشتون اور بلوچوں کو کہتے ہو
ملابہرام نے مزید کہا تم نے جو ایٹم بنائے ہیں ہمیں مار دو تاکہ روز مرنے کے بجائے ہم ایک بار مر جائیں۔
آج کیمپ میں بڑے جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے ،لواحقین میں سے کئی لوگ پھوٹ پھوٹ کر روپڑے جس سے اظہار یکجہتی کرنے والے بھی اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے اوراکثر لوگ آبدیدہ ہوگئے۔