کشمیری شدت پسند اور پاکستانی پروردہ اسلامی تنظیم “حزب المجاہدین” کے رکن برہان وانی کی ہلاکت کے ردعمل میں جموں و کشمیر میں احتجاجی مظاہروں اور انڈین سیکورٹی فورسز کی مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کے سبب پچاس سے زائد افراد کی ہلاکت اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہونے کی وجہ سے صورتحال نے شدت اور پیچیدگی اختیار کرلی، تو اس صورتحال نے بھارتی مقتدرہ حلقوں کیلئے مشکلات پیدا کردی۔ تب اس صورتحال سے نمٹنے، اس سنگین مسئلے کو پاکستان کی جانب سے ہوا دینے کی اصل حقائق کو پیش نظر رکھ کر ان حقائق کو سامنے لانے اور پاکستان پر دباؤ بڑھانے کیلئے کشمیر کی بساط پر ایک بہتر و شاہی چال چل کر انڈین وزیراعظم نریندرمودی نے انڈین دارالحکومت نئی دہلی میں کشمیر پر ہونے والی کل جماعتی کانفرنس سے اپنے خطاب میں، اور ازاں بعد 15 اگست کو انڈیا کی یوم آزادی کی تقریب سے اپنے خطاب میں پاکستان کے زیر تسلط کشمیر، گلگت اور بلوچستان کی صورتحال کا ذکر کرکے قبضہ گیر پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں بلوچ قوم پر روا رکھے جانے والے مظالم و زیادتیوں کا جواب طلب کیا۔ اور کہا کہ “اب وقت آگیا ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے سرحد پار پاکستان سے ہونے والی دہشت گردی، پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر و گلگت میں ہونے والی زیادتیوں اور بلوچستان میں بلوچوں پر مظالم ، زیادتیوں و جنگی طیاروں سے بلوچستان میں بمباری کرنے کیلئے پاکستان کو جوابدہ بنایا جائے۔ اور ان زیادتیوں کوعالمی برادری کے سامنے پیش کیا جائے۔”
اس جواب طلبی نے نہ صرف ایک جانب پاکستانی مقتدرہ حلقوں میں ہلچل سی مچا دی۔ اور پاکستانی مقتدرہ حلقے دباؤ کا شکار ہو کر اپنی دوغلی خارجہ پالیسی کے تحت کشمیر پر مذاکرات کا رٹہ لگانے لگے۔ اور بلوچستان میں فورسز اہلکاروں کو سول ڈریس پہنا کر ان کے ساتھ اپنے کرائے کے لوگوں کو شامل کرکے انڈیا کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا۔اور ساتھ ہی پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزازاحمد چوہدری نے اپنے ہم منصب بھارتی سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر کو خط لکھ کر کشمیر کے معاملے پر اسلام آباد آنے اور مذاکرات کرنے کی دعوت دی، اور بھارتی سیکرٹری خارجہ نے سرحد پار دہشت گردی کو اس سے مشروط کرکے پانچ شرائط پاکستان کے سامنے رکھ کر اس دعوت کو قبول کرلیا، بلکہ نریندرمودی کے اس اقدام نے بلوچ قوم کے فرزندوں کے دلوں میں بھی روشنی اور امید کی ایک کرن پیدا کردی۔ کیونکہ ہمیشہ سے بلوچ آزادی پسندوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ جس طرح پاکستان کھل کر کشمیر کی بات کرتا ہے۔ انڈیا کو بھی چاہیے کہ بلوچ قومی تحریک آزادی کی سیاسی و اخلاقی کمک و مدد کرے۔ آج خطے میں ابھرنے والی نئی صف بندیوں اور بدلتے عالمی صورتحال کے تناظر میں خطے میں انڈیا جیسے بااثر اور طاقتور ملک کے وزیراعظم کی بلوچستان میں ہونے والی زیادتیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالے بیان اور بلوچ قومی آزادی کی حمایت کے عندیہ نے بلوچ قومی تحریک آزادی کے موقف کو عالمی سطح پر ان ایوانوں تک پہنچا دیا ہے، جنہوں نے مصلحت کے تحت بلوچستان مسئلہ اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے اپنی آنکھیں اور کان بند کر رکھے تھے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے اس بیان کی حمایت کرتے ہوئے سابق افغان صدر حامد کرزئی (جس کا اثر و رسوخ آج بھی افغانستان کے حکومتی حلقوں میں قائم ہے۔ ) کی بلوچ قومی آزادی کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو مثبت اور درست اقدام قرار دینے اور بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات حسن الحق انو کی وزیر اعظم نریندر مودی کے موقف کی تائید و حمایت کرتے ہوئے بلوچ قومی آزادی کے حق کو تسلیم کرکے یہ کہنا کہ، “بلوچستان بھی پاکستانی فوج کے وہی زخم برداشت کر رہا ہے، جو 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام سے قبل سابقہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کو دیئے گئے تھے۔ ہم جلد ہی بلوچستان کے بارے میں اپنی پالیسی واضح کریں گے۔”
یہ صورت حال اور پیش رفت بلوچ قومی تحریک آزادی کیلئے نئی راہیں ہموار کرنے کے مراحل ہیں۔ البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ انڈیا، افغانستان اور بنگلہ دیش کی جانب سے بلوچ قومی تحریک آزادی کی یہ سیاسی و اخلاقی کمک و حمایت جاری رہنی چاہیے۔ پاکستان پر صرف دباؤ بڑھانے تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ انڈیا کو کشمیر میں سرحد پار سے پاکستانی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے، پاکستان میں قائم دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں کو بند کرنے، ممبئی و پھٹانکوٹ حملوں کی پیش رفت سے آگاہ کرنے، بھارت سے مفرور ہونے والے دہشت گردوں کی حمایت اور ان کو پناہ دینا بند کرنے، بھارت کو مطلوب مذہبی دہشت گردوں کو گرفتار کرکے انڈیا کے حوالے کرنے اور پاکستان کے زیر تسلط کشمیر کو خالی کرنے کے اپنے شرائط پر سختی سے قائم رہنا چاہئے۔ ان شرائط پر عمل کرنا اور انہیں پورا کرنا پاکستان کیلئے نہ صرف مشکل ، بلکہ ناممکن ہے۔ انہی شرائط کے پیش نظر ہی تو پاکستان سٹریٹجک شطرنج کی بساط پر انڈیا پر دباؤ بڑھانے کیلئے تیور بدلتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بلوچستان حوالے بیان کو اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کا نام دیکر اس کو بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا کھلا اعتراف قرار دے رہاہے۔ اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اٹھانے کا عندیہ دے رہاہے۔ اسی طرح بھارتی وزیر اعظم کے اس موقف کو لیکر نومبر میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی انیسویں سارک سربراہی اجلاس کو انڈیا کی جانب سے سبوتاژ کرنے کا پروپیگنڈہ کر کے عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور OIC کی حمایت حاصل کرکے انڈیا پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن پاکستان کی سفارتی تنہائی اور اس کی دوغلی و ناکام خارجہ پالیسی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے۔ اور خطے میں نئی صف بندیاں و عالمی سطح پر ابھر تی بدلتی صورتحال بھی پاکستان کے حق میں بہتر نہیں ہیں۔ اس لئے بلوچستان حوالے یہ بھارتی موقف و پالیسی پاکستان پر صرف دباؤ بڑھانے تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ بھارت کو عملی طور پر اس پہ ڈٹ کر بلوچ قومی سوال و بلوچستان مسئلے کو اقوام متحدہ کے فلور پر اٹھانا چاہیے۔
اسی طرح بلوچ آزادی پسند قوتوں کو بھی محدود و تنگ نظر رویوں سے نکل کر سفارتی چیلنجز کی حساسیت، پیچیدگیوں اور اہمیت کے پیش نظر وسیع مشاورت، شراکت داری اور اتحاد کیلئے سر جوڑنا چائیے۔ اور منصوبہ بندی و بہتر حکمت عملی پر زور دینا چاہیے۔ وگرنہ آزادی پسند پالیسی سازوں کی خوش فہمی میں مبتلا ہونے والی سوچ اور منصوبہ بندی کا فقدان تحریک کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔