( ہمگام اداریہ ) بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے پہلے دن جب پاکستانی فوج کے ایک بیرگیڈ نے محمد علی جناح کے حکم پر بلوچستان کے دارلحکومت قلات پر حملہ کرکے کئی عام بلوچ شہریوں کو شہید کیا تھا سے لیکر آج تک انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں جاری ہیں ۔ شہری آبادیوں پر بمباری ، ماورائے قانون گرفتاریاں ، پر امن مظاھروں پر حملے ، بلوچ سیاسی کارکنوں کا اغواءاور ٹارگٹ کلنگ ، ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو اغواءکرکے لاپتہ کرنا ، مغوی کارکنان پر انسانیت سوز تشدد پھر انکی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے طول و عرض میں پھینکنا ، ہیلی کاپٹروں سے زندہ زمین پر پھینک کر شہید کرنا ، کھڑی فصلوں کو آگ لگانا ، مال و املاک کو جلانا وغیرہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں جو بلوچستان میں روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں ۔ بلوچستان پر ناجائز پاکستانی قبضہ از خود ایک انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ اسی ضمن میں جہاں ایک طرف بلوچستان میں آزادی کی تحریک زور و شور سے جاری ہے وہیں بلوچ آزادی پسند تنظیمیں اقوام متحدہ سمیت مختلف غیر سرکاری انسانی حقو ق کے اداروں سے اپیل کرتے رہے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے مداخلت کریں ۔ ماضی میں اقوام متحدہ سمیت ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ایشین ہیومن رائٹس کمیشن ، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور ہیومن رائٹس واچ بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر رپورٹ شائع کر چکے ہیں ، جن میں بلوچستان کو انسانی حقوق کیلئے بد ترین علاقہ قرار دیکر پاکستانی فوج اور اسکے خفیہ اداروں کو ذمہ دار ٹہرایا گیا ہے ۔اسی تناظر میں حال ہی میں ہیومن رائٹس واچ نے اپنے 2014 کے جامع رپورٹ میں بلوچستان کا تذکرہ کیا ہے جو ایک حوصلہ افزاءعمل ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ ایک عالمی غیر سرکاری ادارہ ہے ، جو دنیا میں ہونے والے انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے بابت تحقیق کرکے ان پر رپورٹ شائع کرتا ہے ، اس کا مرکزی دفتر امریکی شہر نیویارک میں واقع ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ کے کام کا طریقہ یہی رہاہے کہ یہ انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے مختلف واقعات پر جامع تحقیق کرکے رپورٹس شائع کرتا ہے اور ان خلاف ورزیوں کو میڈیا میں لاتا ہے تاکہ خلاف ورزی کرنے والے ممالک اور گروہوں پر عالمی دباو قائم کیا جائے ۔ اس کے رپورٹس کو عالمی برادری میں مسند سمجھا جاتا ہے اور انکی بہت اہمیت ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ کو سنہ 1978 میں ایک نجی غیر سر کاری ادارے نے ہیلسنکی واچ کے نام سے قائم کیا تھا ۔ اس وقت اسکا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سابقہ سوویت یونین میں جاری انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر تحقیق کرکے انہیں منظر عام پر لایا جائے۔ بعد ازاں اسکے مزید ذیلی ادارے بنائے گئے جن میں امریکن واچ ، ایشیاءواچ ، افریقہ واچ اور مڈل ایسٹ واچ شامل تھے۔ 1988 میں ان تمام کمیٹیوں کو آپس میں ضم کرکے انہیں ہیومن رائٹس واچ کا نام دیا گیا ۔ ہیومن رائٹس واچ کا حالیہ عالمی رپورٹ اسکی 25 ویں سالانہ رپورٹ ہے جس میں دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حالت زار کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ یہ دنیا کے 90 ممالک میں ہونے والے انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا خلاصہ پیش کرتا ہے جن میں قابلِ ذکر دولت اسلامیہ کی کاروائیاں ، سنکیانگ میں چین کا اوغر آبادیوں پر دھاوے اور میکسیکو کے منشیات فروشوں کے مظالم ہیں ۔اس رپورٹ میں بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا علیحدہ سے مختصر مگر جامع تذکرہ شامل کیا گیا ہے ۔ جس کا متن یوں ہے۔ ” بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بدستور ابتر رہی ہے ، مئی 2013 میں ہونے والے حکومتی انتخابات کے باوجود بلوچستان میں فیصلہ سازی کے تمام امور فوج کے ہاتھوں میں ہیں ۔ فوج نے میڈیا اور سول سوسائٹی پر مکمل پابندی لگایا ہوا ہے جسکی وجہ سے وہ بلوچستان جاکر وہاں جاری پر تشدد صورتحال کو کور کرنے میں کوششوں کے باوجود ناکام رہے ۔ جبری گمشدگیاں جن کو پاکستانی فوج سے جوڑا جارہا ہے مکمل آزادی کے ساتھ جاری و ساری ہیں ۔ ۔ 18 مارچ کو سادہ لباس میں ملبوس افراد جن کی بعد میں پہچان پاکستانی نیم فوجی دستوں فرنٹیر کور سے ہوئی نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین زاھد بلوچ کو کوئٹہ سے اغواءکرکے لاپتہ کردیا ۔ تادم تحریر زاھد بلوچ کا اتا پتہ اور تحفظ کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہو سکا۔ باوجود اسکے کے 2013 میں پاکستانی سپریم کورٹ نے یہ حکم دیا تھا کہ جبری گمشدگیوں کے شکار لوگوں کو انصاف دیا جائے اور ساتھ میں اقوام متحد ہ کے ورکنگ گروپ نے 2012 میں ان جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنی تجاویز دیں تھی ، پاکستانی حکومت اپنے ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتا ہے جو اسکے آئین اور جبری گمشدگیوں کو روکنے کے عالمی قوانین کے رو سے اس پر عائد ہیں “ ۔ اسکے ساتھ ساتھ اسی رپورٹ میں تحفظ پاکستان بل پر تنقید کی گئی ہے اور بلوچستان میں شیعہ ہزارہ وال پر جاری حملوں کو ان الفاظوں میں پاکستانی فوج سے جوڑا گیا ہے کہ ” فرقہ وارانہ مسلح تنظیم لشکرجھنگوی کا شیعہ برادری پر حملے جاری رہے لیکن حکومت ابتک کسی بھی مشکوک شخص کو گرفتار کرنے اور سزا دینے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کہ ایسے عناصر کیلئے پاکستانی فوج کے اندر ہمدردی موجودہ ہے “۔ بلوچستان کے آزادی پسند جماعتوں نے ہیومن رائٹس واچ کے اس رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ساتھ ساتھ رپورٹ میں توتک میں منظر عام پر آنے والے اجتماعی قبروں اور آئے روز شہری آبادیوں پر پاکستانی جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی بمباری و شیلنگ کا تذکرہ نا کرنے پر مزید توجہ کا بھی مطالبہ کیا ہے ۔ ان کے مطابق انسانی حقوق کے اداروں کا بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا ایک حوصلہ افزاءعمل ہے لیکن بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی شدت جتنا بیان کیا گیا ہے اس سے کئی گنا زیادہ ہے ، ساتھ میں انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اب یہ مسلمہ اور تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ پاکستانی فوج بلوچستان میں بد ترین انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا مرتکب ہورہا ہے اسلئے اب عالمی اداروں اور عالمی برادری کو محض مذمت کرنے کے بجائے عملی اقدامات کرنی چاہئے ۔