پنجشنبه, اکتوبر 3, 2024
Homeخبریں1998 میں جہاز کو ہائی جیک کرنے والے بلوچوں کے ڈیتھ وارنٹ...

1998 میں جہاز کو ہائی جیک کرنے والے بلوچوں کے ڈیتھ وارنٹ جاری

 پاکستان کی فضائی کمپنی پی آئی اے کا طیارہ ہائی جیک کرنے کے جرم میں تین بلوچ ہائی جیکروں کو 28 مئی کو پھانسی دے دی جائےگی۔

ان پر الزام تھا ہے کہ انہوں نے 24 مئی 1998 کو تربت سے کراچی جانے والے طیارہ ہائی جیک کیا تھا۔

حیدرآباد میں انسداد دہشت گردی کے جج عبدالغفور میمن کی عدالت نے جمعرات کو شہسوار، صابر اور علی محمد رند کے بلیک وارنٹ جاری کر دیے۔

تینوں ملزمان کی اپیلیں سندھ ہائی کورٹ، سپریم کورٹ سے مسترد ہو چکی ہیں اور صدر پاکستان بھی ان کی رحم کی اپیلیں مسترد کر چکے ہیں۔

اس وقت شہسوار اور صابر رند حیدرآباد جبکہ علی محمد رند کراچی جیل میں قید ہیں۔

حیدرآباد کے صنعتی ایریا تھانے پر دائر مقدمے کے مطابق پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کا فوکر طیارہ 35 سے زائد مسافروں اور عملے کو لے کر تربت سے کراچی براستہ گوادر روانہ ہوا تھا۔

گودار سے تینوں ہائی جیکر اس پر سوار ہوئے جنھوں نے کپتان کو جہاز کا رخ بھارت کی طرف موڑنے کا حکم دیا تھا۔

کپتان نے ایندھن ختم ہونے کا کہہ کر جہاز حیدرآباد ایئرپورٹ پر اتار دیا اور ہائی جیکروں کو بتایا کہ وہ بھارت کی ریاست گجرات کے بھوج ایئر پورٹ پر اتر چکے ہیں۔

اس رات حیدرآباد ایئرپورٹ کے آس پاس مساجد میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور ایک منصوبے کے تحت ایس ایس پی حیدرآباد اختر حسین گورچانی اور ڈپٹی کمشنر سہیل شاہ نے ہائی جیکروں کے ساتھ ہندی میں بات چیت کی اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ بھارت میں ہی ہیں۔

اس کے بعد پاکستانی فوج کے کمانڈوز نے رات کے اندھیرے میں آپریشن کر کے تینوں ہائی جیکروں کو گرفتار کر لیا تھا۔

حکام نے ان کا تعلق بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے ظاہر کیا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ تینوں بھارتی ایجنٹ ہیں۔

اس ہائی جیکنگ کے دوران ہائی جیکروں کے اس وقت تین مطالبات سامنے آئے تھے، جن میں بلوچستان میں ایٹمی دھماکہ نہ کرنے، صوبائی خود مختاری دینے اور تربت میں بارشوں کے بعد لوگوں کی مدد نہ کرنے پر ناراضگی بھی شامل تھی۔

بلوچستان کے اس وقت کے وزیر اعلٰی سردار اختر مینگل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان مطالبات کو درست قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ ہائی جیکروں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے صوبے کے مطالبات آگے رکھ کے تحفظ حاصل کرنے کی کوشش کی ہو تاہم یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان مالی بحران کا شکار ہے اور ہر دور میں اس سے زیادتی ہوتی رہی ہے۔

اس واقعے کے تقریباً چار دن بعد میاں نواز شریف کی اس کی وقت کی حکومت نے 28 مئی 1998 کو بلوچستان کے علاقے چاغی میں ایٹمی دھماکے بھی کر دیے تھے۔

اور ان دھماکوں کے 17 سال بعد 28 مئی 2015 کو ہی ان تینوں ہائی جیکروں کو پھانسی دی جائے گی۔

صوبہ سندھ میں بلوچ مزاحمت کاروں کو پھانسی دینے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔

اس سے پہلے 1960 میں ریاست کے خلاف بغاوت کے پاداش میں نواب نوروز خان اور ان کے تین بیٹوں سمیت نو افراد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی، جن میں سے نواب نوروز کے عمر رسیدہ اور ان کے چھوٹے بیٹے جلال خان کے کم عمر ہونے کے باعث ان کی سزائیں عمر قید میں تبدیل کی گئیں۔

حیدرآباد سینٹرل جیل میں چار اور سکھر جیل میں تین باغیوں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا، میر رسول بخش ٹالپور نے مذہبی رسومات کے بعد یہ میتیں بلوچستان پہنچائی تھیں ۔

بشکریہ بی بی سی اردو

یہ بھی پڑھیں

فیچرز