27 مارچ 1948 کے سیاہ دن کا تاریخی پس منظر از گل خان نصیر تاریخ بلوچستان (ہمگام اداریہ) غیر آئینی اقدام کے بعد:

خاران، لس بیلہ اور مکران کا پاکستان کے ساتھ جداگانہ الحاق منظور کرکے پاکستان نے نواب میر بائیان سردار کیچ کو جو مکران کے تین سرداروں سردار پنجگور، سردار کیچ اور سردار تمپ میں سے ایک تھا۔ امیر مکران کے لقب سے علاقہ مکران کا والی مقرر کردیا۔ یعنی حکومت قلات کی بربادی میں انگریزی عہد حکومت میں جو کمی باقی رہ گئی تھی اور جسے انگریزی حکومت جیسی ایک غیر ملکی غیر اسلامی اور قلات سے برسرپیکار دشمن طاقت گوارانہ کرسکی۔ اسے خان قلات میر احمد یار خان کے عہد حکومت میں ان کے قابل احترام اور بزرگوارمسٹر جناح کی سرکردگی میں پاکستان کی اسلامی حکومت نے کر دکھایا، جس کے حصول کے لئے خان قلات دس سال سے زیادہ عرصہ نہایت اخلاص کے ساتھ مسٹر جناح کی ہدایات کے تحت مسلم لیگ کی ابتدا میں درپردہ اور مارچ ۱۹۴۰ ؁ء سے حصول پاکستان کے اعلان کے بعد کھلم کھلا حمایت کرتے رہے۔ جنگ عالمگیرثانی کے دوران میں جب کہ کسی حکمران ریاست کے لئے علی الاعلان کسی سیاسی تحریک کی حمایت و اعانت خطرہ سے خالی نہ تھی۔ انہوں نے حکومت برطانیہ کی ناراضگی، کسی قسم کے خطرے کی پروا کئے بغیر اپنے مسلک و عمل کو قائم رکھا مسلم لیگ کا دامن نہ چھوڑا، مگر پاکستان قائم ہونے کے بعد سب سے پہلے جس حکمران ریاست کے خلاف قدم اٹھایا گیا وہ میر احمد یار خان اور ان کی ریاست قلات تھی۔ وزیراعظم کے خلاف غصّہ کی لہر: دیوان عام اور دیوان خاص کے دوسرے اجلاسوں اور رویے سے قلات کے تمام نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ میں جو کثیر تعداد میں اجلاسوں کی کاروائی دیکھنے اور سننے ڈھاڈر میں جمع ہوچکا تھا۔ غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی۔ لیکن خاران، لسبیلہ اور مکران کے پاکستان کے ساتھ جداگانہ الحاق کرنے کے اعلان سے بلوچ نوجوانوں اور عوام میں وزیراعظم کے خلاف شدید اشتعال پھیل گیا۔ اُسے علی الاعلان بلوچ قوم کی آزادی کا دشمن اور غدار کہا جانے لگا عوام سے اس جوش کو ٹھنڈا کرنے کا واحد طریقہ یہی ہوسکتا تھا کہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر وزیراعظم نوابزادہ محمداسلم خان کو رخصت پر ریاست کی حدود سے باہر بھیجاجاتا۔ لیکن خان قلات نے جب انہیں یہ مشورہ دیا تو وہ ان حالات میں خود رخصت پر جانے کے لئے رضا مند نہیں ہوئے دوسری طرف قلات کے نوجوان طبقہ اور عوام میں اس کے خلاف جو ہمہ گیر بے چینی اور شدید ہیجان پھیل رہا تھا۔ اس کے پیش نظر خان قلات نے قلات اور پاکستان کے مفادات کا خیال کرتے ہوئے ۱۰، مارچ ۱۹۴۸ ؁ء سے نوابزادہ محمد اسلم خان کے حق میں جبری رخصت کا فرمان جاری کرکے اسے وزیر اعظم قلات کے عہدہ سے بھی سبکدوش کردیا۔ قلات کا الحاق: حکومت پاکستان کے متذکرہ اعلان سے قلات کے باقی ماندہ علاقوں کے عوام میں سخت بے چینی اور اضطراب پھیل گیا۔ عام طور پر حکومت پاکستان کے اس اعلان کو جس کو رو سے خاران، لسبیلہ اور مکران کو قلات سے علیحٰدہ ریاستیں اور ان کے سرداروں کو والیانِ ریاست تسلیم کیا گیا تھا۔ حکومت قلات کے خلاف جارحانہ اقدام خیال کیا جانے لگا اور خان قلات پر کئی طریقوں سے دباؤ ڈالا گیا کہ حکومت پاکستان کے اس اقدام خیال کیا جانے لگا اور خان قلات پر کئی طریقوں سے دباؤ ڈالا گیا کہ حکومت پاکستان کے اس اقدام کو خاموشی سے برداشت نہ کیا جائے معدودے چند سرداروں کے بغیر جو متذبذب اور گو مگومیں حالت تھے قلات کے عوام اور خواص اس اعلان سے مشتعل اور برا فوختہ ہوچکے تھے۔ دیوان عام کے عالی جاہ ممبروں کی طرف سے خان قلات کو دیوان کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا نوٹس دیا گیا۔ دو ر و نزدیک کے علاقوں سے جہاں تاروڈاک کا کوئی انتظام نہ تھا صحیح حالات معلوم کرنے کے لئے لوگ جوق در جوق قلات میں جمع ہونا شروع ہوئے۔ قبائل نے غیر مساعد حالات سے عہدہ بر آہونے کے لئے اپنی بلوچ حیثیت کے مطابق تیاریاں بھی شروع کردیں اور جیسا کہ ظاہر ہے ایسی تیاریوں میں بالخصوص ان بے سر و پا قبائل کو وقت لگتا ہے اگر انہیں کچھ اور فرصت مل جاتی تو بہت ممکن تھا کہ قلات کی سرزمین پر زندگی کے آثار نظر آجاتے، لیکن عوام و خواص کی توقعات کے خلاف تعلیم یافتہ نوجوان، ناخواندہ، خواندہ زمیندار، جاہل اور وحشی چرواہوں، عورتوں اور بچوں کی امیدوں اور خواہشوں کے برعکس غرضیکہ قلات کے تمام باشندوں کی آرزوؤں اور امنگوں کے خلاف ۲۷، مارچ ۱۹۴۸ ؁ء کو آدھی رات کے وقت (پاکستان قلات پر فوج کشی کرتا ہے ) خان قلات نے بہ امر مجبوری پاکستان کے ساتھ قلات کے غیر مشروط الحاق کا اعلان کردیا۔ خان قلات کے اس اچانک اعلان سے بلوچ قوم پر جیسے بجلی سی گری۔ ان میں نا امیدی اور مایوسی پیدا ہوئی اور ان کو خان قلات میر احمد یار خان کی ذات سے ایک دفعہ پھر جو توقع پیدا ہوچکی تھی وہ ختم ہوگئی۔ جمع شدہ قبائلی افراد جہاں کہیں تھے وہاں سے ہی ہر کسے بکوئے منتشر ہوگئے۔ کسی نے بھی قلات کا رخ کرکے خان قلات سے یہ پوچھنے کی تکلیف گوارانہ کی کہ آخر ایسا کیوں کیا گیا۔ علاوہ ازیں الحاق کے اعلان کے فوراََ بعد ایجنٹ گورنر جنرل بلوچستان نے قلات جاکر خان قلات کو حکم دیا کہ حکومت پاکستان نے قلات کا الحاق منظور کرنے سے ساتھ ساتھ ریاست قلات کا تمام نظم و نسق بھی اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چنانچہ ریاست قلات کے کابینہ وزراء کو آٹھ گھنٹوں کے اندر اندر توڑ کر وزراء کو برطرف کردیا گیا اور حکومت پاکستان کی طرف سے براہ راست مقرر کردہ ایک افسر محمد ظریف خان نے قلات پہنچ کر وزیر اعظم کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ گرفتاریاں: خان قلات کی طرف سے یہ امر مجبوری عوام کی منشاء اور فیصلے کے خلاف پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے اعلان کو قلات کے کسی گوشے میں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔اعلان کے فوراً ہی بعد حکومت پاکستان کے نمائندوں کی طرف سے خان قلات کو قلات نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری اور ناپسندیدہ ملکی افسروں کو ملازمت سے سبکدوش کرانے کی ہدایت ہوئی ، میر غوث بخش بیزنجو ، مولانا محمد عمر ، مولانا عرض محمد اور میر گل خان نصیر فوراً گرفتار کرلئے گئے ۔ ملک فیض محمد خان یوسفزئی سیکرٹری ٹرانسپورٹ ، ملک عبدالرحیم خواجہ خیل ناظم قلات، سردار بہادر حاجی بہرام خان لہڑی وزیر مال ، میر لعل بخش مینگل تحصیل دار ، سید احمد شاہ ہاشمی تحصیلدار اور ملک محمد پناہ تحصیلدار کے علاوہ قلات کے بیسیوں دوسرے چھوٹے بڑے ملازموں کو جن پر قلات کی وفاداری کا ذرہ بھر شبہ ہوا ملازمتوں سے علیحدہ کردیا گیا۔ سردار بہادر حاجی بہرام خان لہڑی وزیر مال حکومت قلات کو ملازمت سے علیحدہ کردینے کے بعد ایک سال تک کوئٹہ میونیسپل حدود کے اندر نظر بند رکھا گیا ۔ غرضیکہ قلات کے باشندوں کے ساتھ ایک ملحقہ ریاست کے باشندوں کا سا سلوک روا نہیں رکھا گیا بلکہ ان کے ساتھ ایک مفتوحہ ملک پر فاتح قوم کے کردار کا سا مظاہرہ کیا جانے لگا ۔ نیشنل پارٹی خلافِ قانون پاکستان کی مرکزی حکومت کی طرف سے ایک خاص اعلان کے ذریعے قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کو پاکستان بھر میں خلاف قانون جماعت قرار دے دیا گیا۔ آغا عبدالکریم خان کی بغاوت: خان قلات کے چھوٹے بھائی میر عبدالکریم خان ان دنوں مکران کے گورنر تھے۔ جبکہ حکومت پاکستان نے کیچ کے سردار میر بائیان گچکی کو کل مکران کا والی اور مکران کو قلات سے ایک علیحدہ ریاست تسلیم کرکے پاکستان کے ساتھ اس کے جداگانہ الحاق کو منظور کیا۔ حکومت پاکستان کا یہ اقدام حکومت قلات کا پاکستان کے ساتھ باعزت اور قابل پذیرائی تعلقات قائم کرنے کی خواہش کے خلاف ایک غیر دوستانہ اور غیر آئینی فعل تھا۔ آغا عبدالکریم خان نے بھی اسے دوسرے سنجیدہ اور باعزت بلوچوں کی طرح اپنی قومی بے عزتی اور توہین خیال کیا۔ ( اوّل)۔ آغا عبدالکریم خان نظریاتی طور پر نیشلسٹ یعنی قوم پرست اور بلوچ اتحاد کے طلب گار تھے ۔ مکران کے ضلع کو قلات سے کاٹ کر اس کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنا دینے کو اس نے جو ایشیاء کے تمام بلوچوں کو جمہوری بنیادوں پر ایک مرکز اور بلوچ جھنڈے کے سایہ تلے جمع اور مربوط کرنے کے خواہاں تھے ، بلوچوں میں اتحاد و یکجہتی قائم کرنے کے بجائے ان میں باہمی دشمنی ، قبائلی اور علاقائی منافرت اور قومی انتشار پھیلانے کا پیش خیمہ خیال کیا اور اس لئے وہ قلات کے ٹنڈ منڈ جسم سے ایک اور عضو کے کاٹ کر جدا کردینے کو اصولی طور پر برداشت نہیں کرسکے۔ (دوم)۔آغا عبدالکریم خان نے ایک بلوچ کی حیثیت سے اسے بھی اپنے لئے شگان(طعنہ) سمجھا نواب بائیان گچکی سردار کیچ کی اس ناز یباحرکت کو مکران کے عوام نے بھی پسندیدہ خیال نہیں کیا مکران کے بعض سنجیدہ اور قوم پرست حلقوں نے اسے اپنی قومی توہین اور مکران کے نام پر سیاہ داغ کہااور اس کی مذمت میں حکومت پاکستان اور خان قلات کے نام سینکڑوں احتجاجی ٹیلی گرام بھیجے گئے ۔جن میں نواب بائیان کومکران کا نمائندہ تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا ۔ یہاں تک کہ نواب بائیان کے صاحبزادہ اور جانشین میر حمید اللہ خان نے بھی قوم اور وطن دوستی کا ثبوت دے کر اپنے والد کے خلاف مکرانی عوام اور بلوچ قوم کا ساتھ دیا ۔ میرسربلندی سردار نپجگورنے نواب بائیان کو اپنے علاقہ کا حاکم تسلیم کر نے سے انکار کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے شدیداحتجاج کیا۔ غرضیکہ نواب بائیان گچکی سردار کی اس حرکت کے خلاف مکران اور قلات کے طول وعرض میں غم وغصّہ کی لہردوڑگئی۔ لیکن خان قلات کی طرف سے قلات کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے اعلان کے بعدیہ صورت حال دیرپانہ رہ سکی ۔ شہزادہ عبدالکریم خان پاکستان کے ساتھ قلات کے الحاق کی خبر سنتے ہی مکران چھو ڑ کر قلات چلے آئے۔لیکن وہ اس قدر مشتعل ہوچکے تھے کہ قلات کے متذکرہ حالات میں ان کا صبر و تحمل سے زیادہ عرصہ قلات میں گذارنا ناممکن تھا ۔ آخر کار ۱۶ مئی ۱۹۴۸ ؁ ء کی رات کو اپنے چند رفیقوں کے ساتھ کردگاب کے مقام پر سرحد پار کرکے حکومت افغانستان کی حدود میں داخل ہوئے اور سر لٹھ پر کاریز نظر محمد خان کے مقام پر ڈیرہ ڈال دیا ۔ سر لٹھ پر اجتماع: آغا عبدالکریم خان احمد زئی شہزادہ خان قلات کے بھائی ہونے کے علاوہ قلات کے تمام قبائل میں ذاتی طور پر بہت ہر دل عزیز ہیں ۔ان کا سرحد پار جانا تھا کہ بلوچ قوم میں کھلبلی مچ گئی اور ایک مختصر عرصے میں تقریباً پانچ ہزار مسلح افراد سر لٹھ کے مقام پر آغاعبدالکریم خان کے پاس جمع ہو گئے ۔