Homeآرٹیکلزپاکستان ایران گٹھ جوڑ،بلوچ قومی یکجہتی ناگزیر : تحریر خیرداد بلوچ

پاکستان ایران گٹھ جوڑ،بلوچ قومی یکجہتی ناگزیر : تحریر خیرداد بلوچ

ہمگام کالم : بعض لوگ اس بات کو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ
دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے

لیکن وہ اسی بات کو دوسرے زاویے سے دیکھنے کی جسارت نہیں کرتے کہ

دشمن کا دوست آپ کا دشمن بھی تو ہے ناں؟

دور نہ جائیں اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، پاکستان اور ایران آپس میں دوست ہیں تو پھر دونوں دوستوں میں سے ایک آپ کا دشمن اور دوسرا دوست کیسے قرار پایا ؟

درج بالا محاورے کے مطابق مذہبی شدت پسند جو پاکستان سے لڑ رہے ہیں آپ کے دوست ہیں جبکہ جو قابض ایران سے لڑ رہے ہیں وہ آپ کے دشمن کیسے بن گئے؟ کیونکہ دونوں مذہبی گروہ آپ کے دشمن سے لڑرہے ہیں، یہاں دشمن کا دشمن آپ کا دوست والا محاورہ کیوں لاگو نہیں ہوتا؟
ایران میں آپ پناہ لیتے ہیں، آپ اسے بے شک مجبوری کا چولہ پہنا دیں، ایران طالبان کی حمایت کررہی ہے تو کیا طالبان آپ کے دوست ٹھہرے؟
ایران سے نبرد آزما بلوچ جو اسلام ، دین مذہب کا نام لیکر بلوچستان کے دشمن ملک قابض ایران سے لڑ رہے ہیں وہ آپ کے دشمن کیسے بن گئے؟

اس گھتی کو سلجھانے کے لیئے ضروری ہے کہ پہلے آپ بلوچ بن جائیں، بلوچ وحدت، بلوچ قومی شناخت اور بلوچ گلزمین کو سب سے آگے رکھ کر کام کیا جائے، بلا خوف، کھلم کھلا ببانگ دھل اس بات کو قوم اور عالمی برادری کے سامنے قومی اتفاق رائے سے رکھا جائے کہ ایران اور پاکستان ہمارے ازلی دشمن ہیں، دنیا کا کوئی بھی طاقت ان میں کسی سے بھی تجارت، معاشی، فوجی اور سیاسی و سفارتی تعلق رکھے گا اسے ہم بلوچ قوم اجازت نہیں دے سکتے ، جب آپ بلوچ بن کر دنیا کو اپنی قومی امنگوں سے آگاہ کریں گے تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ آپ کے لئے بے تہاشا مشکلات ہونگے کیونکہ دنیا اپنے مفادات کو دیکھتی ہے بلوچ قوم کی مفلسی اور کمزوری سے ان کو کوئی غرض نہیں لیکن جب آپ ایک قوم بن کر دنیا سے بات کرنے کی ٹھان لیں گے تو وہ وقت دور نہیں جب دنیا کو آپ کی قومی طاقت کےسامنے گھٹنے ٹیکنا پڑے، کیونکہ قبضہ گیر کو ہمیشہ سے شسکت ہوئی ہے وہ چور ہے اور آپ اپنی سرزمین کا مالک۔ یک زبان ہوکر بات کرنے سے آپ دنیا کو اپنی موقف منوانے میں ضرور کامیاب ہونگے ، تقسیم ہوکر، دھڑوں میں بٹ کر ساز باز کرنے، سودے بازی کرکے آپ کچھ وقت کیلئے ، عارضی و گروہی مفادات سمیٹ تو سکتے ہیں لیکن بلوچ قومی آزادی کی منزل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔

ایران سے لڑنے والے بلوچ مذہبی رجحانات رکھنے والی تنظیم کے ارکان پر اگر کوئی یہ سوچ کر حملہ کرتا ہے کیونکہ وہ پاکستان کے حمایت یافتہ ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ پاکستان گذشتہ اٹھارہ سالوں سے القاعدہ، طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ارکان کو مکمل مدد کررہی ہے ان کے خلاف چھپ رہنا اور ایران مخالف بلوچ تنظیم کی مخالفت چہ معنی دارد؟ ایران سے برسر پیکار بلوچ گروہ نے اگر پاکستان سے نبرد آزما کسی بلوچ کو اگر گزند پہنچائی ہو تو وہ بھی قابل مذمت عمل ہے کیونکہ بلوچ آپس میں بھائی ، بھائی ہیں، ان کے مابین مذہب اور اسلامی خیالات کی پرچار ان کو قومی خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہیں ۔

بلوچوں کا سب سے اہم مسئلہ ان کی قومی غلامی ہے، اسلام کی پیروی ہر فرد کا اپنا ذاتی عمل ہے، جس طرح امریکہ میں مسلمان مساجد میں اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے میں آزاد ہیں، یورپ میں مسلمانوں کو کوئی روک ٹوک نہیں، خلیج کے عرب ممالک میں غیر مسلم ، ہندو، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو مکمل آزادی ہے تو پھر بلوچ ایک قوم ہوتے ہوئے کیوں مذہب کو لیکر اختلافات رکھ سکتے ہیں؟
یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ ایک سنی بلوچ ایرانی رجیم کے لئے قابل قتل ہے کیونکہ وہ بلوچ سرزمین کی بات کرتا ہے، اور ایران کو معاشی، فوجی نقصان پہنچا رہا ہے جو بلوچستان کو قتل گاہ بنا چکا ہے، جبکہ یہی ایران طالبان اور دیگر مذہبی گروہوں کو مکمل مدد کررہی ہیں کیونکہ وہ افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے اور دیگر بلوچ حمایتی ممالک کو نشانہ بنارہے ہیں۔

ایران اور پاکستان کی شروع دن سے یہی منصوبہ بندی رہی ہیں ہے کہ بلوچ اجتماعی طاقت کو کیسے تقسیم کیا جائے، وہ بلوچ کو بلوچ سے لڑانے کی اس دیرینہ ڈاکٹرائن پر کاربند رہے ہے، بلوچ کو نیست و نابود کرنے کی غرض سے وہ ہر اس ملک سے مدد لے رہے ہیں جن سے وہ کئی جنگیں لڑ چکا ہے، پاکستان اسلام کی ٹھیکیداری کا دعویدار ہے لیکن بلوچستان کو ہڑپ کرنے میں مدد کے لیے وہ چین کی اسلام دشمن جیسے اقدامات کو بھول جاتا ہے۔
بلوچ قوم کو بھی دنیا میں ہر اس ملک سے امداد لینے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے جس سےانہیں پاکستان کی غلامی سے چٹکارا ملنے کے امکانات ہو ۔

قوم بن کر اگر دنیا سے اپنی بات کرو گے تو خطے میں کوئی بھی طاقت آپ کو پراکسی اور کرایہ کا قاتل بنانے کی جرات نہیں کرسکتا۔ دنیا کے مفادات بدلتے رہتے ہیں، لیکن آپ کو اپنی قومی موقف آزادی پر سودے بازی سے گریز کرنی چاہیے اس میں بلوچستان کی بھلائی، بلوچ قوم کی غلامی سے آزادی پنہاں ہے۔

Exit mobile version