ایران میں داخلی امن عامہ اور سیاسی و معاشی بحران تیزی سے بگڑ رہی ہے، محتاط اندازے کے مطابق جاری مظاہروں کے دوران ایرانی فورسز کی فائرنگ سے دو سو کے قریب مظاہرین ہلاک ، 3 ہزار زخمی اور ایک ہزار کے لگ بھگ گرفتار ہوئے. ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ گذشتہ جمعے سے ایران میں جاری مظاہروں میں اب تک کم از کم 106 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سو شہروں میں بیک وقت مظاہرے ہورہے ہیں مظاہروں کا دائرہ کار تیزی سے دوسرے علاقوں تک پھیلتی جارہی ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ ملک ایسے سخت دباؤ کا شکار ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایرانی صدر کے مطابق امریکہ کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں نے معاشی صورتحال کو 1980-88 میں عراق کے ساتھ جنگ کے دوران معاشی حالات سے بھی ابتر بنا دیا ہے۔ ایرانی حکومت پر فساد داخلی انتشاری صورتحال کو بیرون دنیا سے چھپانے اور اس پر پردہ ڈالنے کیلئے وقتی طور پر اس وقت انٹر نیٹ کی سہولت کومکمل طور پر بند کر دی ہے۔ ایران نواز اخبار کیھان جسے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کا پروپیگنڈہ مشنری کہا جاتا ہے نے حکومتی فورسز کو مظاہرین سے سختی سے نپٹنے اور مارنے کی صلاح دی ہے۔ دوسری جانب مظاہرین حکومتی دباو کو خاطر میں لائے بغیر سڑکوں پر نکلتے جارہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ، ساتھ ان کے متشدد ہونے کے آثار میں اضافہ دکھائی دے رہا ہیں ۔تیل کی حالیہ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، اشیائے خوردو نوش، اجناس، اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی میں استعمال ہونے والی چیزوں کی تیزی سے بڑھتے قیمتوں نے عوام کو مشتعل کردیا ہے۔ بظاہر یہ مظاہرے ایران کی تیزی کے ساتھ دھڑام سیاسی و معاشی ڈھانچے کی تباہی، تہران کا عالمی سطح پر سیاسی، سفارتی تنہائی، کے ذمہ دار حکمران ملا رجیم کے رجعت پسندانہ و دہشتگردانہ خارجی طور پر مشرق وسطی اور داخلی طور محکوم و مظلوم اقوام کرد،بلوچ اور عرب اھوازی و ترکمن پر ریاستی دہشتگردانہ پالیسیز کی وجہ سے ہیں، لیکن خطے میں رونما ہونے والے عالمی حالات کا کروٹ بدلتے اونٹ کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اس خطے کا نقشہ یکسر تبدیل ہونے جارہا ہے۔ عرب اپرائزنگ کے بعد دنیا میں بڑی تبدیلیاں وقوع پزیر ہورہی ہیں۔ خطے میں نئے صف بندیاں نظر آرہی یے ، پرانے دوست اب دشمن جبکہ دیرینہ حریف اب دوست بن رہے ہیں۔ ایران عرصہ دراز سے زیر زمین اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے تیزی سے سرگرم عمل تھی،ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کی پاداش میں سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کی حکومت نے 6 دیگر بڑی عالمی طاقتوں اور تہران کے ساتھ مل کر جنوری 2015 کو ایک ایٹمی معاہدے پر دستخط کئے۔ اس معاہدے کی روح سے ایران کے لئے معاشی پابندیوں میں خاطر خواہ آسانی و نرمی پیدا کردی گئی تھی جس سے ایران عالمی منڈی میں بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس معاہدے کو ایران نے اپنی سیاسی و سفارتی جیت سے تعبیر کرتے ہوئے چین، روس، فرانس، جرمنی، امریکہ کو باور کرایا کہ تہران جوہری ہتھیاروں کا حصول نہیں چاہتا۔ خطے کی چیدہ, چیدہ حالات پر گہری سیاسی عبور رکھنے والی رکھنے والا بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری واحد بلوچ لیڈرتھے تھے جنہوں نے سب سے پہلے بلوچ قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے امریکہ کی سربراہی میں عالمی طاقتوں کا ایران کے ساتھ اس ڈیل کو “ڈیل ود دی ڈیول” یعنی شیطان کے ساتھ ڈیل کے نام سے بیان جاری کرتے ہوئے سب کو حیران کردیا۔ بلوچ مدبر اور عالمی پائے کے رہنما کے بیان میں ایران کی منفی عزائم پر کھل کر بات کی گئی تھی، انہوں نے امریکہ اور عالمی برادری کو اس ڈیل پر کھڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران معاشی بندشوں کے خاتمے سے اپنی معیشت کو مضبوط کرکے اس سے حاصل ہونے والے رقوم سے مشرق وسطی میں خصوصی اور دوسرے خطوں میں عمومی طور تباہی برپا کریگی، اور زیر زمین اپنی جوہری پروگرام کو بھی جاری رکھے گی۔ بلوچ رہنما کے اس بیان کو اس وقت کافی زیادہ پزیرائی ملی جب موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برسر اقتدار آتے ہی ایک صدارتی حکم نامے کےتحت شیطان کے ساتھ اس ڈیل کو ختم کرکے بلوچ رہنما کے خطے کے امن بارے حقیقی خدشات اور سیاسی ادراک کو تسلیم کرکے درست ثابت کردیا۔ بلوچ رہنما نے ٹرمپ اتنظامیہ کے اس فیصلے کی تعریف کے ساتھ ، ساتھ ایران پر مزید پابندیوں کے اطلاق کا بھی مطالبہ کردیا۔ ایران خطے میں جس مقام پر واقع ہے یہ اپنی زیر قبضہ جغرافیائی حدود کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔عالمی سطے کے تیل تجارت کا ایک بڑا حصہ آبنائے ہرمز سے ہوکر گزرتی ہے جو دنیا کی معیشت میں ریڑھ کے ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ خطے میں جاری کشمکش بلوچ قوم کے لیے کس طرح آسانیاں اور مشکلات کا باعث بننے جارہا ہے اس کا فیصلہ کسی دوسرے ملک سے زیادہ خود آزادی پسند بلوچ سیاسی قیادت کو کرنا ہے۔ ایران کے داخلی حالات و عالمی سیاست کے نبض کو دیکھ کر یہی گہمان غالب دکھائی دے رہا یے کہ ایران کی ملا رجیم سے بیزار بہت سی اقوام جن میں بلوچ، کرد، ترکمن، عرب احواز اور آزربائیجانی لوگ اکھٹے ہورہے ہیں۔ محکوم اقوام کا ایرانی ملا رجیم کے خلاف اتحاد بلوچ قومی تحریک کے لیے نیک شگون ہے کیونکہ ایک بڑے عرصہ کے بعد بلوچ قومی تحریک کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا سنہری موقع دستیاب ہونے جارہا ہے۔ چند ناپختہ و سیاسی نابالغ لوگوں کا  خیال ہے کہ ایران کی موجودہ بحران عارضی ہے اس میں کھود پڑنا بلوچ قوم کے لیے فائدہ مند نہیں لیکن وہ اپنی اس بات کو منطق اور دلیل کے ساتھ بیان کرنے میں تاحال ناکام رہے ہیں۔ اس وقت پورے خطے میں ایران کے ساتھ اس کے حمایت کوئی بھی ملک کھڑا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ یورپ نے صاف الفاظ میں ایران سے معزرت کرلی کہ وہ اس وقت تہران کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکتے، چین اور روس باتوں کی حد تک ایران کے ساتھ نظر آتے ہیں لیکن جنگ کی صورت میں وہ تہران کا ساتھ نہیں دے سکتے، کیونکہ دونوں ممالک ایران کے لیے اپنی معیشت کو داوں پر لگانے کی بھول نہیں کریں گے۔ ایران کی کٹر ملا رجیم سے آزادی کا مطالبہ بلوچستان کے لیے انتہائی سازگار اور قابل عمل پالیسی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل آزادی پسند پارٹی فری بلوچستان موومنٹ  نے ایران سے اپنی حق حاکمیت اور آزادی کے لیے برسرپیکار کرد، عرب احواز، ترکمن، آزربائیجان کے پارٹیوں کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرکے ایک دوسرے کی قومی کاز کو سپورٹ کرنے کا اعادہ کیا گیا تھا۔ رواں ہفتہ بھی کینیڈا کے شہر وینکوور میں کردستان آزادی پسند پارٹی کی دعوت پر ایف بی ایم کے کینیڈا میں نمائندہ عزیز بلوچ نے شرکت کی تھی اور بلوچ و کرد اقوام کے رشتوں کو مزید مضبوط کرنے پر زور دیا تھا ۔ بلوچ قوم کے رہنماوں اور آزادی پسند پارٹیوں, سیاسی کارکنوں کو چائیے  کہ وہ حیربیار مری کی ایران سے متعلق پالیسی کا کھل کر ساتھ دے تاکہ گجر اور پنجابی کی ظلم و جبر اور ان کی بلوچ قوم کو غلام بنائے رکھنے کی منصوبوں کو مل کر ناکام بنائیں۔ اس وقت دنیا کو بلوچ قومی اتحاد، اتفاق اور قومی طاقت کا مظاہرہ کرکے یہ پیغام دینا ہے کہ ہم ایران و پاکستان جیسے مذہبی انتہا پسندی کا قلع قمع کرنے کے لیے کردار کے حامل قوم ہیں۔ ہماری سرزمین تقسیم کردی گئی ہے اسے جوڑنے کے لیے سب سے پہلے بلوچ قوم کو آپس میں جڑ کر یک زبان ہوکر موثر انداز میں قومی پالیسی دنیا کو بتانا ہے۔ اب بھی اگر ہم قومی غفلت اور اپنی ذاتی و گروہی مفادات کا اسیر بن کر رہ گئے تو آنے والے وقت میں اپنی قومی شناخت و گلزمین دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، اور اس وقت قومی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایک ہونگے تو پھر نہ گجر ہمیں مار سکتا ہے نہ پنجابی قابض فوج۔ یہ کہنا مشکل نہیں کہ ایران کو صومالیہ، عراق بنتے کچھ بھی دیر نہیں لگے گا۔ تہران کو اس نہج تک پہنچانے میں خمینی ملارجیم اور پاسداران انقلاب کا قلیدی کردار ہے۔ ایران عرصہ دراز سے مشرق وسطی میں ایک خونی جنگ کو ہوا دینے کے لئے اپنے خزانے کا منہ کھول کر بیٹھی ہے، یمن میں حوثی باغیوں کو میزائل کا رسد ہو یا اسرائیل کے خلاف لڑنے والے حزب اللہ جنگجووں کو دور مار میزائل کی ترسیل ایران کی سخاوت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ خلیج میں بھلے ہی کوئی پائے کا یونیورسٹی ہو، اسپتال اور دیگر سماجی خدمت مہیا کرنے والی فلاح و بہبود کا کوئی پراجیکٹ نہ ہو لیکن ایرانی پراکسیز کے جنگی کیمپ اور اسلحہ کے کھیپ پہنچانے کی خبریں ہر زبان زد عام ہیں۔ تہران کا خیال ہے کہ پیسے اور اسلحہ کی فراوانی سے خطے میں اپنی دہشت گردانہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گی اور پڑوسی ممالک، امریکہ، یورپ، اور خلیج میں دھونس جماکر من چاہے نتائج حاصل کریگی تو ان کا یہ خواب بری طرح چکنا چور ہوچکی ہے۔ کیونکہ ایران کی داخلی مسائل کے ساتھ ، ساتھ امریکہ اپنا پیٹریاٹ میزائیل دفاعی نظام مشرق وسطی بھیج چکا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی بی52 بمبار طیارے اور جنگی بیڑا بھی قطر کے ایک فضائی اڈے پر پہنچ گئے ہیں۔امریکہ نے ایران کو ایک ’واضح اور بے مغالطہ پیغام‘ بھیجنے کے لئے مشرق وسطی میں اپنا ایک جنگی بحری بیڑا تعینات کیا ہے۔ امریکہ  کا کہنا یہ اقدام ایران کی جانب سے ’متعدد دھمکیوں اور اکسانے والے بیانات‘ کے جواب میں اٹھایا گیا ہے۔