کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ آزادی پسند پارٹی فری بلوچستان موومنٹ نے میڈیا کو جاری اپنے بیان میں بی ایم سی کے پرامن طور پر احتجاج کرنے والے طلبہ و طالبات پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قابض پاکستانی فورسز کا بلوچ بہن بھائیوں پر ریاستی تشدد، لاٹھی چارج گرفتاریاں اس بات کی غمازی کرتے ہے کہ بلوچ فرزندوں کو اپنے اعلی تعلیمی اداروں میں فورسز کی مداخلت اور تعلیمی حقوق و ناانصافیوں کے خلاف پرامن طور پر آواز اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔
جو کہ قابض ریاست کے نام نہاد جمہوری و پارلیمانی نظام کے چہرے پر دنیا کے سامنے ایک سیاہ کلنک کی طرح مزید واضع ہوگیا۔
فری بلوچستان موومنٹ اپنی قوم کے باشعور تعلیم یافتہ فرزندوں اور پوری قوم کے سامنے یہ بات واضع کرتی ہے کہ قابض اور مقبوضہ کے درمیان رشتہ ریاستی جبر حاکم اور محکوم کی پالیسیز پر مبنی ہوتی ہے نہ کہ قانون اور انصاف کے نظام پر۔
پارٹی اپنے مرکزی پالیسی بیان میں قوم کے سامنے یہ بات بھی واضع کرتی ہے کہ گزشتہ روز قابض پاکستانی فوج کے آئی جی ایف سی میجر جنرل فیاض حسین شاہ فوج اور آئی ایس آئی کے جنگی جرائم پر ناکام طریقے سے پردہ ڈالنے کی کوشش کرکے دورہ ہرنائی میں فلاح و بہبود اور تعلیم و ترقی کے جھوٹے دعووں کی قلعی اس وقت کھل گئی جب ریاستی پولیس نے بلوچ باعزت طلبا و طالبات پر کوئٹہ میں لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کا بے رحمانہ سلسلہ شروع کیا۔
اس بدمعاش فوجی ریاست کی جانب سے بلوچ قوم کے فرزندوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی اس کے نام نہاد عدلیہ ،پارلیمنٹ اور میڈیا کے مجرمانہ کردار پر سینکڑوں قسم کے سوالات سامنے لاتا ہے۔
بلوچ قوم کے فرزند اس وقت تک زندگی کے ہر شعبے میں اپنی مرضی عزت اور سکون سے سرانجام نہیں دے سکتے جب تک کہ ہم اپنی قومی آزادی حاصل کرکے دنیا کے نقشے پر دوسرے مہذب اقوام کی طرح ہماری قومی ریاست تشکیل نہیں پاتی۔
ہمیں خوشی ہے کہ بلوچ خواتین ہر دور میں اپنے بلوچ بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پنجابی اور اس کے دیسی کاسہ لیسوں کو بلوچ ماں بہنوں کی ہر گزرتے روز شعوری آگاہی کانٹے کی طرح چھب رہی ہے۔ بلوچ عزت دار ماں بہنوں نے جب بھی اپنی قومی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے پاکستانی مظالم کے خلاف جرات کے ساتھ آواز اٹھائی تو انہیں بہن شاہ ناز کی طرح گولی مارکر زخمی کردیا، یا زامر بگٹی، گلناز مری اور کمسن یاسمین بلوچ اور سینکڑوں دیگر بلوچ فرزندوں کی طرح گولی مار کر بے رحمی سے شہید کردیا گیا یا پھر مقبوضہ بلوچستان کے طول و عرض میں بسنے والے بلوچ علاقوں میں زمینی اور فضائی بمباری سے بڑی تعداد میں اجتماعی طور پر ان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ہماری قوم یہ بات ذہن نشین کرلے کہ بلوچ دشمن پنجابی ریاست ہمیں اپنی نفرت و تعصب سے شہری اور قومی حقوق لینے کی پاداش میں سزا دے کر اجتماعی طور پر ہدف بنارہی ہے۔
آج بھی ہزاروں کی تعداد میں بلوچ اسیر فرزندان ریاستی عقوبت خانوں میں ذہنی و جسمانی اذیتیں برداشت کرریے ہیں، ان بلوچ فرزندوں کی بازیابی کی خاطر ہماری غیرت مند ماں بہنوں نے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سےاسلام ، آباد پیدل 3000 کلو میٹر تک لانگ مارچ کیا ان کا یہ قومی غیرت اور حوصلہ اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ بلوچ مائیں اپنی مادر وطن کی آزادی اور بلوچ قوم پر بیتنے والے ریاستی ظلم و جبر کے خلاف ہرگز چپ بیٹھنے کو تیار نہیں۔
بلوچ ماں، بہنوں نے ریاستی ہتھکنڈوں کے آگے سرنگوں ہونے کی بجائے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا۔
ان کا پہاڑ جتنا حوصلہ بلوچ قوم کو متحد ہوکر مشترکہ دشمن سے نبرد آزما ہونے کا سبق دے رہا ہے۔
گذشتہ روز بولان میڈیکل کمپلیکس میں قابض پاکستانی انتظامیہ کی جانب سے شہید غفار بلوچ کی بہادر و باہمت بیٹی گودی ماہرنگ بلوچ اور ان کے ساتھ دیگر پاکدامن و باشعور بلوچ بہنوں کے پرامن احتجاج میں رخنہ ڈالتے ہوئے ان کو زد وکوب اور ان پر لاٹھی چارج ریاست کی دیرینہ ہٹ دھرمی اور دہشت گردانہ عزائم کا تسلسل ہے۔
پنجابی قابض مقتدر کی یہ خام خیالی ہے کہ وہ بلوچ باضمیر فرزندوں کو ڈرا دھمکا کر ریاستی طاقت کے زور پر قومی سوچ اور جدوجہد سے کنارہ کش ہونے پر مجبور کرپائیں گے۔
آج بلوچ غیور فرزندوں کا ملی فرض بنتا ہے کہ ہر ایک بلوچ اپنے گھر سے نکل کر چھپ اور خوف کا کمبل اوڑنے کی بجائے اپنی ماں بہنوں کا اخلاقی، سیاسی اور ہرممکن مدد کرے، کیونکہ بلوچ سیاسی اسیران کی رہائی کے لیے احتجاج کرنے والے بلوچ ماں بہنیں اور پیرو ورنا ہم سب کی آواز بنے رہے ہیں،اور آج کی طرح ہم آئندہ بھی ان کے ساتھ اس اجتماعی دشمن کے خلاف یکجا ہوکر مقابلہ کرکے اپنے قومی ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔