واشنگٹن(ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق سابق امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیاں ختم کردی جاتی ہیں تو اس صورت میں بھی وہ اپنی تخریبی سرگرمیوں سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ لحاظ، بائیڈن انتظامیہ کو ایران پر دباؤ جاری رکھنے کے لیے پابندیاں ختم نہیں کرنی چاہیے
مائیک پومپیو نے جمعرات کے روز العربیہ سے ایک انٹرویو میں کہا ہے:’’میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک انتظامیہ کیسے یہ یقین کیے بیٹھی ہے اگر ایران کے خلاف پابندیوں کا دباؤ ختم کردیا جاتا ہے تو وہ کیونکر بین الاقوامی اقدار کے مطابق کردار ادا کرے گا۔‘‘
انھوں نے کہا: ’’اگر آپ ایرانیوں پران کے بُرے کردار سے روکنے کے لیے دباؤ ڈالنے کو تیار نہیں تو وہ یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کیوںکرختم کریں گے۔وہ گذشتہ برسوں کے دوران میں جس طرح حوثیوں کی سفارتی ، فوجی حمایت کرتے رہے ہیں اور انھیں ہتھیاروں کے نظام مہیا کرتے رہے ہیں تو میں نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ کیسے ختم ہوگا۔‘‘
مائیک پومپیو نے کہا یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کو دہشت گرد قراردینے کے فیصلے کی تنسیخ ایک سنگین غلطی تھی۔اس سے نہ صرف خطے کے ممالک خطرے سے دوچار ہوں گے بلکہ خود امریکا کے لیے بھی خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔‘‘
انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’اس بات سے تو کوئی بھی اختلاف نہیں کرتا ہے کہ حوثی دہشت گرد ہیں۔انتظامیہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہم آج ہی پابندیاں ختم کررہے ہیں کیونکہ وہ اب دہشت گرد نہیں رہے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ’’انھوں (بائیڈن انتظامیہ) نے پابندیاں اس لیے ختم کی ہیں کیونکہ وہ ایران میں آیت اللہ اورملّاؤں کو ممنونِ احسان کرنا چاہتے تھے۔یہ ایک بہت ہی خطرناک معاملہ ہے۔‘‘
پومپیوکے بہ قول ایرانی اس معاملے کو ایک کمزوری سمجھیں گے۔اس سے پھرہمارے عرب شراکت داروں، ہمارے اسرائیلی شراکت داروں اور دوستوں کو خطرہ ہوگا اور دنیا بھر میں سفر کرنے والے امریکیوں کے لیے بھی خطرہ ہوگا۔‘‘
حوثی باغی پہلے ہی یمن سے سعودی عرب کے شہری علاقوں اور تیل کی تنصیبات کی جانب بیلسٹک میزائلوں اور بارود سے لدے ڈرونز سے حملے کررہے ہیں۔تاہم عرب اتحاد نے ان میں سے بیشترحملوں کوناکام بنا دیا ہے اور بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کو فضا ہی میں تباہ کردیا ہے۔
سابق امریکی وزیرخارجہ نے کہا:’’ میں نہیں جانتا کہ آپ حوثیوں کو اس بات کا کیسے قائل کریں گے کہ وہ سعودی عرب کے جنوبی علاقے کی جانب ہتھیار اور بیلسٹک میزائل نہیں چلائیں۔اس سے سعودی عرب میں سفر کرنے والے امریکی خطرے سے دوچار ہوں گے۔مجھے اس کا کچھ آئیڈیا نہیں کہ بائیڈن انتظامیہ یمن کے تعلق سے ایرانیوں کو مکمل طور پرمطمئن اورشکرگزار کیے بغیر کیسے جنگ ختم کرے گی۔‘‘
واضح رہے کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں ایران سے 2015ء میں طے شدہ سمجھوتے کو خیرباد کہہ دیا تھا اور ایران کے خلاف سخت پابندیاں عاید کردی تھیں۔اس کے بعد سے اس جوہری سمجھوتے کے بارے میں غیر یقینی صورت حال ہے۔
صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ایران کے ساتھ اس جوہری سمجھوتے میں دوبارہ شمولیت کے لیے بات چیت کررہی ہے لیکن اس نے یہ شرط عاید کی ہے کہ ایران اس سے پہلے اس سمجھوتے کے تمام تقاضوں کو پورا کرے اور مقررہ حد سے زیادہ یورینیم افزودگی کی تمام سرگرمیاں معطل کردے۔
دوسری جانب ایران یہ مطالبہ کرتا چلا آرہا ہے کہ امریکا کو پہلے ٹرمپ دور کی عادی کردہ تمام پابندیوں کا خاتمہ کرنا چاہیے۔اس کے بعد ہی وہ جوہری سمجھوتے کی شرائط کی پاسداری کرے گا اور یورینیم کو اعلیٰ سطح پر افزودہ کرنے کا عمل روک دے گا۔
تاہم بائیڈن انتظامیہ نے صدرٹرمپ کے بعض اقدامات کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔اس نے نیویارک میں ایرانی سفارت کاروں کے داخلی سفر پر عاید بعض سخت پابندیوں میں نرمی کردی تھی۔اس نے ایران کے خلاف عاید کردہ پابندیوں کے خاتمے کا بھی عندیہ دیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا ہے کہ وہ کون سی پابندیاں ختم کرے گی۔