یکشنبه, اپریل 13, 2025
Homeخبریں5796 دن کا احتجاج: بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں ناقابل برداشت...

5796 دن کا احتجاج: بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکی ہیں — ماما قدیر بلوچ

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5796 دن مکمل ہو گئے۔ اس موقع پر ماما قدیر بلوچ نے بلوچستان کی موجودہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بہتری کے بجائے حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ امن کے آثار کہیں نظر نہیں آتے بلکہ مکران، جھالاوان اور بولان میں مزید فوجی کارروائیوں کا خدشہ ہے۔

ان خیالات کا اظہار ماما قدیر بلوچ نے کیمپ میں آئے مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اتوار کے روز نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما نصیر احمد شاہوانی، بی ایس او پجار کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بلوچ، اور ہزارہ برادری کے ضامن چنگیزھی نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے یکجہتی کا اظہار کیا۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان ہمیشہ سے سیاسی طور پر متحرک رہا ہے، حتیٰ کہ آمریت کے ادوار میں بھی بلوچ سیاسی کارکنان نے آواز بلند کیے رکھی۔ مگر آج سیاسی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندیاں عائد ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور ان کے خاندانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ اور بیبو کے والد کو ماورائے عدالت گرفتار کیا گیا، جو ریاستی جبر کی عکاسی کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی سرگرمیاں ریاست کی مخالفت نہیں بلکہ حکمرانوں کو ان کی آئینی و اخلاقی ذمہ داریاں یاد دلانے کا ذریعہ ہیں۔ مگر ریاستی ادارے ان سرگرمیوں کو دباکر بلوچ قوم کو دیوار سے لگا رہے ہیں، جو انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے۔ وی بی ایم پی مطالبہ کرتا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ فوری بند کیا جائے اور تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔

ماما قدیر بلوچ نے بلوچستان میں بڑھتے جرائم پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا، خاص طور پر پسنی میں قتل کیے گئے معصوم بچے، ساحل گلاب کے واقعے پر۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ مجرموں کی دیدہ دلیری کا نتیجہ ہے، اور انتظامیہ احتجاج کے باوجود پسنی جیسے چھوٹے شہر میں بھی انصاف کی فراہمی میں ناکام ہے۔

آخر میں انھوں نے کہا کہ بلوچ قوم کو چاہیے کہ وہ اندرون و بیرون وطن اپنی سیاسی اور انسانی حقوق کی جدوجہد کو مربوط کرے، کیونکہ اب ظلم و جبر ناقابل برداشت حدوں کو چھو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز