اکتیس جنوری کی رات بلوچ لبریشن آرمی نے قلات کے علاقے منگوچر میں واقع قابض پاکستانی آرمی کے کیمپ پر شدید اور منظم نوعیت کا حملہ کرتے ہوئے پورے علاقے کو تقریباً نو گھنٹے سے زائد عرصے تک اپنے کنٹرول میں رکھا۔
جھڑپیں شروع ہونے کے بعد علاقائی ذرائع سے آنے والی اطلاعات کے مطابق قلات منگوچر کے تمام داخلی و خارجی راستے بی ایل اے کے کنٹرول میں رہے اور وہاں پر زمینی آمد و رفت کاسلسلہ بی ایل اے کے رحم و کرم پر رہا اور تمام آتے جاتے گاڑیوں کی نہ صرف تلاشی لی گئی بلکہ اس میں انتظامی طور پر بی ایل اے کے جانبازوں نے پروفیشنل پولیسنگ کرتے ہوئے دشمن کے اہلکاروں کو گرفتار کرکے ہلاک کیا اور علاقائی لوگوں کی جان و مال کی تحفظ کو بحرطور یقینی بنایا۔
یہ تمام واقعات اور انتظامی طور پر علاقے کی کنٹرول کو احسن طریقے سے نبھانے کی مشقیں درصل بی ایل اے کے پیشہ ورانہ عسکری و جنگی قابلیت و اہلیت کا اظہار تھے جہاں جذبات و جنگی میدان کے اثرات سے بچتے ہوئے بلوچ راجی لشکر نے انتہائی پیشہ ورانہ طریقے سے اس پورے عمل کو انجام تک پہنچایا جس میں ناں کسی بے گناہ شہری کی جان و مال کو کوئی گزند پہنچایا گیا اور نہ ہی بی ایل اے کے اپنے کسی جانباز کو کوئی نقصان پہنچا بلکہ اسکے برعکس انہوں نے پاکستانی عسکری اداروں کے اہلکاروں کے اسلحہ ضبط کئے اور ایک بنک کو جلا کر راکھ میں بدل ڈالا۔
یہ تمام منظم واقعہ بی ایل اے کی طویل استقامت اور جنگی قابلیتوں کا مظہر تھا جس کے لئے بی ایل اے کہ لیڈرشپ، کمانڈرز اور کیڈرز نے ایک طویل عرصے تک اس مقام تک پہنچنے کے لئے شبانہ روز جد و جہد کیا۔
یاد رہے کہ بی ایل اے کو ماضی میں انتظامی و عسکری نقصان پہنچتا رہا ہے اسکے علاوہ کچھ لوگوں کی انحرافی اقدامات کی وجہ سے بی ایل اے مالی و لاجسٹیکل سپورٹ کے حوالے سے بھی بحرانوں کا سامنا کرتا رہا لیکن ان تمام منفی عوامل اور سنگین حالات نے بی ایل اے کی لیڈرشپ کے پائے استقلال میں لغزشیں پیدا ہونے نہیں دیں جو کہ بذات خود ایک اطمینان بخش عمل ہے اور اس غیر روایتی اور غیرمتوقع واپسی نے عالمی میڈیا کی توجہ قلات منگوچر کے حملے کے جانب مبذول کروائی۔
پاکستانی میڈیا
پاکستانی مین اسٹریم میڈیا جو اکثر و بیشتر بلوچ مزاحمتی محاذ پر ہونے والے واقعات کے خبریں نشر کرنے اور ان پر تجزیہ کرنے گریزاں رہتا ہے لیکن بلوچ لبریشن آرمی کے منگوچر میں ہونے والے اس منظم اور شدید حملے کے بعد ڈان نیوز سے لے کر جیونیوز تک جو پاکستان کے معتبر ذرائع ابلاغ کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، نے اس حملے کے بارے لب کشائی کی اور اسکے بارے میں تجزیات سمیت خبریں بھی شائع کیں اور خود پاکستانی فوج کے سپہ سالار عاصم منیر نے اس حملے کے حوالے سے بیان دیا اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کوئٹہ کے دورے پر پہنچے، وگرنہ اس سے پہلے بلوچستان بھر میں رونما ہونے والے اس سے ملتے جلتے حملوں کے بعد اس طرح کی شدید رد عمل پاکستانی مقتدرہ کے بالائی حکام کی جانب سے نہیں آئی۔ ہاں البتہ پاکستانی قابض فوج کے ترجمان آئی ایس پی آر اپنے ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں صحافیوں کے اسرار پر ان واقعات کے حوالے سے ضرور بولتے رہے ہیں۔
عالمی ذرائع ابلاغ
اسکے علاوہ ایسوسی ایٹر پریس A P نے بھی بی ایل اے کے اس خبر کو بریک کیا اور زیادہ تر وہ چونکہ پاکستانی فوج کے پریس بریفنگ اور پاکستانی مین اسٹریم میڈیا پر انحصار کرتے ہیں تو انہوں نے پاکستانی جھوٹی دعوؤں کو بھی اپنی خبر اور تجزیوں کاحصہ بنایا جو کہ بنیادی طور بلوچ آزادی پسند ذرائع ابلاغ کی کمزور رسائی اور باہمی اختلافات کا مظہر ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے معتبر ترین خبر رساں اداروں میں سے ایک واشنگٹن پوسٹ نے بھی بی ایل اے کی اس کارروائی کو اپنے صفحات پر جگہ دی لیکن پھر وہی پاکستانی فوج کے معلوماتی ذرائع پر انحصار بلوچ آزادی پسند قوتوں کی خبر رساں ذرائع کی انتشار کے کو لے کر ان معتبر اداروں نے بلوچ ذرائع ابلاغی معلومات سے کوئی استفادہ نہیں کیا۔
علاوہ ازین دی نیوز نے بھی بی ایل کے اس حملے کے حوالے سے اپنے صفحات پر خبریں شائع کیں اور برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ( بی بی سی ) نے اس حملے کی مختلف پہلوؤں پر اپنے تجزیاتی رپورٹس شائع کیں۔صرف بی بی سی اردو سروس نے بی ایل اے کی اس کامیاب کارروائی پر تین مختلف رپورٹس اور تجزیے شائع کیں جہاں ان حملوں کی مختلف جہات انکی دورس اثرات سمیت بلوچ لبریشن آرمی از سر نو صف بندیوں سمیت اس حملے کی علاقے پر پڑنے والے اثرات پر بات کی گئی۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیالرحمن نے اس حملے کے حوالے سے بی ایل اے کی بنیادی کارروائی سے لے کر آج تک اور بی ایل اے کی آپسی اختلافات اور تنظیمی توڑ پھوڑ سمیت بی ایل اے کی از سر نو صف بندیوں پر بات کی اور اس بارے میں بلوچ لبریشن آرمی کے اس حملے کو نہ صرف پاکستان کے بلکہ ایرانی قابض ریاست کے لئے بھی ایک خطرے کی گھنٹی کے طور پر یاد کیا اور کہا گیا کہ اس سے ایرانی ریاست کو مسقبل میں سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
اختتامیہ
بلوچ لبریشن آرمی حالیہ منظم بلوچ مزاحمتی تحریک کا موثر ترین تنظیم رہا جہاں انہوں نے نہ صرف دوسرے دیگر بلوچ مزاحمتی تنظیموں کی نشونما اور انہیں عسکری و انتظامی قابلیت کے حامل بنانے کی حقیقی کوششیں کیں بلکہ اپنے بطن سے جدا ہونے والے دیگر گروہوں اور ہونے والی انحراف کو بڑے جگر کے ساتھ سہا اور اپنی صف بندیوں کو از سر نو ترتیب دے کر ایک بار بلوچ سرزمین قابض ریاستوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی۔
بلوچ لبریشن آرمی نے قلات منگوچر پہرکی جانے والی اس حملے سے یہ ثابت کردیا کہ اکیسویں صدی کی تمامتر ٹیکنالوجیکل کامیابیوں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر قابضین کی کامل دسترس ہونے کے باوجود چھاپہ مار جنگی قوانین ابھی تک اس طرح قابل اور کامیاب ہیں جس طرح وہ آج پانچ سو سال پہلے ہوتے تھے، گوکہ کہ انتظامی و جنگی حکمت عملیوں میں ضرور زمین آسمان کا فرق آگیا ہے لیکن دشمن کو نفسیاتی طور شکست دینے کی بہترین طریقہ یہی ہے کہ دشمن پر ایسے وقت پر وار کرنا جب دشمن کسی بھی طرح اس حملے کی توقع نہ رکھتا ہو اور اسکے بعد بغیر کسی جانی و مالی نقصان کے یا کم از کم نقصان برداشت کرکے بحفاظت دشمن کے فضائی و زمین گھیرے سے نکل کر اپنے پناہ گاہوں تک پہنچنا دشمن کو احساس کمتری اور اخلافی و نفسیاتی شکست سے دوچار کرتی ہے۔