کراچی (ہمگام نیوز) سب سے پہلے آپ تمام صحافی حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ لوگ ہمیشہ کی طرح ہماری آواز کو اجاگر کرنے کیلئے یہاں تشریف فرما ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی آپ اپنے اس مقدس پیشے کی زمہ داریوں پر پوری طرح اتر کر اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہماری آواز کو حکام بالا تک پہنچانے میں اپنا کردار کریں گے۔
انہوں نے کہا بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی چیئرمین جاوید بلوچ کو 23 اپریل 2025 کی رات تقریباََ 3 بجے کے قریب سادہ لباس میں ملبوس سیکیورٹی اہلکاروں نے گلستان جوہر، بلیز ٹاور کراچی میں انکی رہائشگاہ پر دھاوا بول کر انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے جسکے بارے میں ہمیں کوئی اطلاع نہیں کہ وہ اس وقت کہاں اور کس حالت میں ہیں۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ چیئرمین جاوید بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف ہم نے گلستان جوہر کے قریب تمام پولیس تھانوں پر ایف آر درج کرنے کیلئے درخواست جمع کی لیکن انہوں نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا۔ ایک پرامن سیاسی طالب علم رہنما کو بغیر کسی جرم کے غیر قانونی طور پر گرفتار کرکے جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا ملکی آئین کو پاؤں تلے روندھنے کے مترادف ہے۔ اس گھناؤنی حرکت پر ہم شدید تشویش کا اظہار کرکے نہ صرف اس غیر آئینی اور غیر قانونی عمل کی مزمت کرتے ہیں بلکہ حکومت وقت اور متعلقہ اداروں سے انکی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
چیئرمین جاوید بلوچ ایک پرامن، باشعور اور طالب علم رہنما ہیں، جنہوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے پلیٹ فارم سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تعلیمی آگاہی، طلباء کے حقوق، اور سیاسی شعور کی ترویج کے لیے انتھک جدوجہد کی ہے، وہ ہمیشہ جمہوری اقدار کے حامی رہے اور کبھی بھی کسی پرتشدد واقعات یا عمل کا حصہ نہیں رہے، ان کی قیادت میں بی ایس ایف نے بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں طلباء کے مسائل کو پرامن اور آئینی طریقے سے اجاگر کیا، اور ان کے حل کے لئے تسلسل کے ساتھ اپنی پرامن جدوجہد کو جاری رکھا۔
بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ ایک قوم پرست نظریاتی اور پُرامن سیاسی طلباء تنظیم ہے، جو گزشتہ کئی سالوں سے بلوچ نوجوانوں کو تعلیم، شعور اور جدوجہد کا راستہ دکھا رہی ہے۔ بی ایس ایف نے ہمیشہ ان مظلوم طلباء کے حقوق کیلئے آواز بلند کی ہے جنہیں تعلیمی اداروں میں مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جنہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کیا گیا ہے یا ان کے تعلیمی سفر میں رکاوٹیں ڈالی گئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیم ہی امن، ترقی و خوشحالی کا اصل راستہ ہے، اور چیئرمین جاوید بلوچ نے بھی اپنے ہر عمل سے اسی پیغام کو عام کیا ہے۔ شاید اس پرامن جدوجہد کی پاداش میں انہیں تاریک زندانوں میں پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ جاری بلوچ طلباء کی ماورائے عدالت گرفتاری، جبری گمشدگیوں نے بلوچ طلباء کو خوفناک کیفیت میں مبتلا کیا گیا ہے، اس خوفناک ماحول میں ہر ایک بلوچ طالب علم اس گھڑی کا انتظار کر رہا ہے کہ کہیں انکی باری تو نہیں آئے گی۔ اس سے پہلے تعلیمی اداروں میں بلوچ نوجوان خود کو محفوظ تصور کرتے تھے لیکن اب بلوچ نوجوان نہ اپنے گھروں میں محفوظ ہیں اور نہ ہی تعلیمی اداروں میں انہیں تحفظ فراہم ہے۔
جاوید بلوچ کی جبری گمشدگی نہ صرف ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ریاستی جبر کی اس پالیسی کا تسلسل ہے جس کے تحت بلوچ نوجوانوں کو ان کی مثبت سوچ، آواز اور پرامن سیاسی قیادت کے صلاحیتوں کی پاداش میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ پہلا واقع نہیں ہے بلکہ اس قبل گزشتہ مہینے میں بھی سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے کراچی کے ایک ہوٹل سے رات کو چیئرمین جاوید بلوچ اور بی ایس ایف کے سنٹرل کمیٹی کے ایک رکن کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا تھا، جہاں انہیں ڈرانے اور دھمکانے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ اس طرح کے گھناؤنی عمل نہ صرف غیر آئینی اور غیر انسانی ہیں بلکہ یہ ریاست اور عوام کے درمیان فاصلے کو مزید بڑھاتے ہیں۔ ہم حکمرانوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ایک پرامن طلباء رہنما کو آخر کس جرم کی پاداش میں اغوا کیا جاتا ہے؟ کیا تعلیم، شعور و آگاہی پھیلانا، طلباء کے حقوق کی بات کرنا اب جرم بن چکا ہے؟ ہاں اگر تعلیم، شعور و آگاہی پھیلانا جرم بن چکا ہے تو ملک میں عدالت بھی موجود ہیں، انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، لیکن اس طرح ایک پرامن رہنما کو اغوا کر کے لاپتہ کر دینا سراسر ظلم و زیادتی کے مترادف ہے۔
ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ نوجوان، بلوچ طلباء اور سیاسی کارکن آئے روز اس جبر کا نشانہ بن رہے ہیں۔ جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت اغواء نما گرفتاریاں، دھمکیاں، نوجوانوں کو مختلف ہتھکنڈوں کے زریعے ہراساں کرنا اور تعلیمی اداروں میں طلباء کی پروفائلنگ، فیک انکاؤنٹرز کے زریعے نوجوانوں کو قتل کرنا ایک معمول بن چکی ہیں۔ ان حالات میں ریاستی اداروں کی خاموشی اور حکومتی بے حسی صرف اس بحران کو مزید بڑھاوا دے رہی ہے۔ چیئرمین جاوید بلوچ جیسے پرامن سیاسی طالب علم رہنما اگر محفوظ نہیں، تو یہ بات واضح ہے کہ بلوچستان کا کوئی نوجوان خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا۔
اس گھمبیر حالات میں بی ایس ایف نہ صرف اس ظلم کے خلاف بھرپور احتجاج کرے گی بلکہ ملک بھر کے طلباء تنظیموں، سول سوسائٹیز، انسانی حقوق کے اداروں، صحافیوں اور دیگر جمہوریت پسند حلقوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ بلوچ طلباء پر جاری ظلم و بربریت پر خاموش نہ رہیں۔ چیئرمین جاوید بلوچ کی گمشدگی صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مثبت سوچ، تعلیم اور سیاسی شعور کے خلاف ایک واضح اور منظم حملہ ہے۔ہم اس پریس کانفرنس کی توسط سے حکومت وقت، ملکی عدلیہ، اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ چیئرمین جاوید بلوچ کی فوری اور غیر مشروط بازیابی کو یقینی بنایا جائے۔ ہم پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں، لیکن اگر ریاستی جبر اسی طرح تسلسل کے ساتھ جاری رہا تو نوجوان نسل کیلئے یہ پیغام جائے گا کہ اس ملک میں پرامن جدوجہد کا کوئی فائدہ نہیں جو کہ یہ پیغام بلوچ قوم اور ریاست کے درمیان فاصلے کو مزید بڑھا کر انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
ہم پریس کانفرنس کے آخر میں یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ چیئرمین جاوید بلوچ ایک پرامن سیاسی رہنما ہیں، انکو جلد از جلد باحفاظت بازیاب کیا جائے۔ اگر چیئرمین جاوید بلوچ کو بازیاب نہیں کیا گیا تو ہم مختلف دیگر طلباء تنظیموں، سول سوسائٹیز کے ساتھ ملک احتجاج کرکے ہر فورم پر اس ظلم وبربریت کے خلاف آواز بلند کریں گے اور ان تمام مظلوموں کی نمائندگی کریں گے جو صرف اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں ریاستی جبر کا شکار ہوئے ہیں۔ چیئرمین جاوید بلوچ کی رہائی صرف بی ایس ایف کا مطالبہ نہیں، یہ ہر باشعور انسان کی آواز ہے۔ ہم ریاستی اداروں سے ان کی فوری، غیر مشروط اور باعزت رہائی کا پرزور مطالبہ کرتے ہیں۔