کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ نیشنل موومنٹ کی مرکزی کمیٹی کااجلاس چیئرمین خلیل بلوچ کی صدارت میں آج دوسرے روز بھی جاری رہا۔دوسرے روز کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں قومی تحریک ،پاکستان کی بربریت اور بلوچ نسل کشی ،خطے اور عالمی صورت حال پربحث کی گئی ہے۔مرکزی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہاکہ انسانی صفات سے محروم ،بین الاقوامی قاعدے قوانین کا منحرف پاکستان کے مقابلے میں ایک بکھری ہوئی سماج اور روایتی سیاست کے دلدادہ لیڈروں کی کارستانیوں،قومی سیاست کے منحرفین کی دشمن سے باقاعدہ ہم قدم ہونے سمیت بار بار مایوسیوں کے زخموں کے باوجود، آزادی کے نعرہ کی ایسی عملی مقبولیت حاصل کرنا بلوچ کی اپنی آزادی اور مادروطن سے محبت اور نیشلزم کے نظریے کی طاقت کااظہارہے۔ آج بلاشبہ تحریک قومی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیاہے اورقوم کو آزادی کے فلسفے اور ایکتا کے لڑی میں پرونے کا ایک جامع ارتقاء ہوچکاہے ،جس کی خدو خال آئندہ واضح ہوتے چلے جائیں گے اورآج نہ صرف بلوچ قوم اپنی آزادی کے جدوجہد کو مضبوط بنیادیں فراہم کرچکا ہے بلکہ دنیامیں ہماری قومی آواز سنا جارہا ہے ۔دشمن ہمیں کچل نہیں سکا ہے، اس کامیابی کے لئے ہم نے قیمت چکائی ہے مگر آزادی کے تحریکوں میں کوئی ایسی پیمانہ نہیں ہوتا کہ قومی آزادی کے عوض نقصانات کا تخمینہ لگایا جائے۔آزادی کے لئے اس سے بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے ہم نے پارٹی بانی چیئرمین غلام محمد کی قربان دی ہے ،آج ہم نے ڈاکٹر منان بلوچ کی قربانی پیش کی ہے ۔ہم نے کابینہ ،سینٹرل کمیٹی کے ممبران کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر خالد ،سدو جان ،شہیک جان سمیت ہزاروں فرزندوں کی لہو کے نذرانے پیش کئے ہیں ۔ہزاروں کی تعدادمیں دشمن کے قید خانوں میں بند غیرانسانی اذیتیں سہہ رہے ،جب کسی شہید کی لاش پھینکی جاتی ہے تو اس کے جسم پر تشدد کے نشانات بتاتے ہیں کہ اس درندہ ریاست نے ان کے ساتھ کیسی درندگی روا رکھی ہے ، تاریخ و تہذیب اور انسانی اقدار سے محروم دشمن سے اس سے کہیں زیادہ بربریت کاامکان ہے ۔’’دشمن کتنی مدت تک اس شدت کے ساتھ بلوچ نسل کشی کے عمل کو جاری رکھے گا ‘‘یہ اہم نہیں ہے ،بلکہ ’’دنیا میں کوئی طاقت قومی جدوجہد کو آج تک ختم نہیں کرسکا ہے ‘‘یہ اہم ہے ۔ آغاز سے اب تک دشمن کی درندگی و انسانیت سوز مظالم کا سورج سوا نیزہ پر ہے ،ہمہ وقتی کریک ڈاون جاری ہے ،بات چادر و چاردیواری سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔آج پورے کے پورے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹائے جارہے ہیں ۔مادروطن باقاعدہ وار زون میں بدل چکا ہے۔ سیاست کے پیچیدہ حالات اور قومی غلامی کے احساس کی بھٹی میں پک کر کندن بنے عظیم ساتھیوں کی روزانہ کی بنیادوں پر شہادت قومی تحریک میں ایسی کسوٹی بن چکے ہیں جس میں اترنے والے آج اپنی خالص نظریاتی سوچ ،مضبوظ کمٹمنٹ اور پختہ حوصلے کے ساتھ قوم کی نمائندگی کا فریضہ ادا کرنے کے لئے ہراول دستے میں شامل ہورہے ہیں اور اس کسوٹی نے جس طرح نام نہاد قوم پرستی کے دعویداروں کو قوم سے الگ کرکے ان کی اصل شبیہ قوم کے سامنے عیاں کردی، اسی طرح قومی تحریک کے نام پر ذاتی مفادات کی تگ و دو میں مصروف عناصر کی بھی حقیقت واضح ہوتا جارہاہے اور یہ عمل مسلسل ہے۔
آج بلوچ قومی سیاست دوواضح حصوں میں بٹ چکاہے ایک جانب وہ پارٹیاں ہیں جو پاکستانی فوج ،اس کے خفیہ اداروں کے لئے کام کرتے ہیں اور جو بلوچ قوم کی نسل کشی اورقومی وسائل کی سودا بازی میں مصروف ہیں تو دوسری جانب قومی آزادی کی تحریک ہے جو بلوچ قوم کی مدد و تعاون سے پاکستان کے ساتھ ساتھ اس کے باجگزار پارٹیوں کا مقابلہ بھی کررہا ہے ۔ہماری قومی جدوجہدآزادی میں پارٹی پلیٹ فارم اور اداروں کی تشکیل تحریک کے موجودہ ابھارمیں بنیادی عنصر ہے اور اکابرین نے پارٹی سیاست کی خشت اول رکھنے اور قوم کو پارٹی سیاست اور اداروں کی تشکیل اور فعالیت کی جانب گامزن کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اداروں کی بنیادی ساخت اور سمت متعین کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اورقوم کو پارٹی سیاست کے مکمل دائرہ کار میں لانے کے لئے کامیاب ہوجائیں گے ۔ جب قومی تحریکِ آزادی محض شخصیات پر انحصا راوراداروں کے بغیرآگے بڑھے توایسا ماحول بن جاتا ہے جو محض وارلارڈز کو جنم دیتا ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر بلوچ نیشنل موومنٹ کی قیادت اپنی اتحادیوں سے ہم آہنگ ہوکر ہمیشہ قومی تحریک کو کامیابی سے منزل کی جانب لیجانے کے لئے اداروں کی مضبوطی اور استحکام کے موقف پر قائم رہے گااور ہمارے تعلقات بھی اسی فلسفے کے تناظر میں طے ہوں گے جس سے انحراف ناممکن ہے اورہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارافکر کامیاب ہورہا ہے ۔جب ہم مجموعی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ بلوچ قوم کی وہ تاریخی سمت کا تعین ہے جس کا منطقی منزل قومی آزادی ہے اور اس کی حصول کے لئے تحریک کو بنیادی طورپر سیاسی میدان میں منظم کرنے اوراس پر انتہائی سخت گیری سے قائم رہناوہ موثر حکمت عملی ہے جس نے دشمن کوآج باؤلا کردیا ہے ۔وہ علاقے جہاں قومی آزادی کی جدوجہد زیادہ جڑ پکر چکا ہے وہاں ننگی فوجی جارحیت کے ساتھ ساتھ دشمن کے تشکیل کردہ فوج کے متوازی جرائم پیشہ عناصر پر مشتمل ڈیتھ سکواڈزکو منظم اور فعال کرکے بلوچ نسل کشی اور ظلم وجبر کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔آج اس نے بلوچ قوم پر ایسی ظلم و جبر اوردرندگی اور انسانیت سوزمظالم کا سلسلہ شروع کیا ہے۔جس کی تاریخ میں مثال بہت کم ہی ملتی ہے ۔ ہماری سرزمین کو پاکستان نے باقاعدہ ایک فوجی چھاونی اور نازی طرز پر کیمپ میں بدل دیا ہے۔ یہ ہماری جدوجہد کی کامیابی ہے جس نے پاکستان کو انتہائی قدم اٹھانے کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس کے تمام حربے اور تمام ادارے ناکام ہوچکے ہیں وہ محض فوجی جارحیت کے ذریعے بلوچستان پر قابض ہے ۔قومی تحریک نے آج پاکستان کوایسی حالات سے دوچار کردیا ہے کہ وہ دیگر تمام تنازعات یا معاملات پر پسپائی اختیار کر رہا ہے یا باقاعدہ سرنڈر کررہا ہے کیونکہ بلوچستان سب سے بڑا محاذبن چکاہے ۔آج بلوچستان تمام علاقوں میں خواہ وہ شہر ہوں ،دیہی علاقے ہوں یا پہاڑ وں میں مقیم بلوچ کی جھو نپڑیا ں ہوں،ہر مقام پر جنگ اور پاکستان کی بربریت کے آثار واضح ہیں لیکن اس کے باوجود بلوچ قوم کی ہمت پست نہیں ہوئی ہے اور آزادی پسندوں کو حمایت و ہمدردی ہمیں حاصل ہے ۔بلوچ قوم کے خلاف تمام نام نہاد قوم پرست آج باقاعدہ پاکستان کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں اورعملاََ جنگی جرائم میں ملوث ہورہے ہیں۔نیشنل پارٹی ،بی این پی جیسے پارٹیوں نے پاکستان کے ریاست کو یہاں بلوچ قوم پرستی کے نام پرسہارا دیا ہے اور ریاست انہیں دنیا میں بلوچ قوم پرستی کے نمائندہ کے طورپر پیش کرتا ہے تا کہ وہ دنیا کو دکھا دے کہ قوم پرست پاکستان کے حامی ہیں اور آزادی پسندبہت قلیل تعدار اور چند ناراض لوگ ہیں جنہیں بلوچ قوم کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ اور انہوں نے اسی دعوے کی بنیاد پر سرکار حاصل کی کہ وہ اس تحریک کو تامل طرز پر ختم کریں گے مگر ڈھائی سال ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود قومی تحریک کو کچلنے یا بلوچ قوم کی تحریک کو حاصل حمایت میں کمی لانے میں قطعی ناکام ہوئے۔آج بلوچ قوم نے ان کی اصل شبیہ کو پاکستان کی جرائم میں برابر شریک دیکھ کر انہیں اپنی قاتل سمجھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان میں جتنے سیاسی یا مذہبی پارٹیاں ہیں وہ سب ہماری جدوجہد اور آزادی کے خلاف ہیں۔ ان میں فرق صرف یہ ہے کہ ان کی دشمنی کے اپنے اپنے طریقے ہیں۔2جون 2015کو آل پارٹی کانفرنس ہوئی اس میں آرمی چیف کی موجودگی میں ان تمام نے بلوچ قومی تحریک کو ختم کرنے کے لئے پاکستان آرمی کو مکمل تعاون و مدد کا اعلان کیا ۔ہماری دشمن قومی تحریک کو کچلنے سے اب تک ناکام تجربوں میں مصروف ہے جس میں ایلیٹ کلاس ،سردار ،جرائم پیشہ عناصر،نیشنل پارٹی ،بی این پی ،جمیعت ،جماعتِ اسلامی جیسے پارٹیوں کودشمن تازہ دم کرکے میدان میں اتارتا رہتا ہے تاکہ ان کی مدد سے جدوجہد کو سرنگوں کرے مگر ہربربریت پر مبنی تجربے کے بعد ایک نئی بربریت کاسلسلہ شروع کردینے کے باوجوداس لئے ناکام ہیں کیونکہ بلوچ قوم اپنی نجات کے راستے متعین کرچکا ہے اور اس میں آمدہ مشکلات کا حل وہ صرف قربانیوں میں تلاش کرچکا ہے ۔ آج دشمن نے مذہبی عناصرکو تحریک اور بلوچ قوم وسماج کے خلاف فعال کیا ہے ،بلوچ کی سیکولر قومی مزاج کو مذہبی جنونیت ،مذ ہبی یگانت کو فرقہ واریت میں بدلنے اور مذہب کے نام پر قتل و قتال وتضاد و تصادم برپا کرنے کے لئے پاکستانی خفیہ ادارے مذہبی جنونیت وفرقہ واریت کوپھیلارہے ہیں تاکہ قومی تحریک کی مکمل حمایت میں دراڑ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ مدارس کے ذریعے پاکستان کے پراکسی جنگوں کے لئے افرادی قوت کی فراہمی کویقینی بنایاجائے۔ اس لئے مذہبی عناصر کو جنگی بنیادوں پر بلوچستان کے طول و عرض میں پھیلاجارہاہے۔ بلوچ لیڈر عرصہ درازسے دنیا کو خبردار کرتا چلایا آیا ہے کہ پاکستان دوہرا کھیل کھیل رہا ہے اور مغربی فوجی و معاشی امداد کو بلوچ نسل کشی میں استعمال کررہا ہے بلکہ اس امدادسے مزید انتہا پسندی کی افزائش کررہا ہے۔ یہاں انہیں پناہ گاہیں فراہم کررہا ہے۔ یہ ہماری موقف کی صداقت ہے کہ آج اعلیٰ سطح پرپاکستانی سرکار اس بات کا اعلان کررہا ہے کہ وہ طالبان کو سہولت فراہم کررہا ہے۔ اورصرف پٹھان کوٹ ائیربیس پر حملے کی ایف آئی آر پنجاب میں درج ہوتا ہے لیکن بلوچ قوم کی نسل کشی اور یہاں پاکستان کی جنگی جرائم کی ایف آئی آر تاریخ کے صفحات میں درج ہورہا ہے اور ایک دن پاکستان ان جرائم کے لئے تاریخ کے عدالت کی کٹہرے میں کھڑا ہوگا۔ مذہبی انتہاپسندی پاکستان کی ضرورت بن چکا ہے کیونکہ اس کی وجود بھی اسی پر قائم ہے۔ ا س لئے پاکستان مذہبی انتہاپسندی کو منافعت بخش کاروبار بناکر مدتوں سے انڈیا ،افغانستان اور بلوچ قوم کے خلاف استعمال کررہا ہے ۔مگر ضرب عضب جیسے ڈھکوسلے کے باوجود پاکستان اپنی پالیسی پر گامزن ہے ۔جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعیدکے سر کی قیمت امریکہ لاکھوں ڈالر رکھتا ہے وہ راولپنڈی میں جی ایچ کیوکے سامنے جلسے کرکے یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ فوج کی مدد و حمایت سے کررہا ہے۔ دنیا اس سے ہر گز غافل نہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی طاقتیں اپنے قلیل مدتی مفادات کے لئے پاکستا ن پر انحصار کرکے خطے کی حالات سے کھیل رہے ہیں جس کا خمیازہ بلوچ سمیت یہاں آباد تمام قوموں کو بھگتنا پڑے گا ۔آج بھی ہم دنیا پر واضح کرتے ہیں کہ طالبان سے کہیں زیادہ خطرہ پاکستان کی مذہبی انتہاپسندی کی مسلسل افزائش اورخطے کی حالات دگرگوں کرنے کے لئے منصوبوں سے ہے ،جس کی زد میں نہ صرف بلوچ قوم آرہاہے بلکہ دنیا کا کوئی خطہ اس سے محفوظ نہیں رہے گا۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دشمن سر عام عالمی جنگی قوانین اور اخلاقی اقدار کو روند کر بلوچ قوم پر دوزخ کے دروازے کھول چکاہے ،اس مزموم عمل میں اسے اپنی اتحادیوں کا پورا تعاون حاصل ہے ۔جس میں چین اور سعودی عرب واضح طورپر شامل ہیں ۔پاکستان کی بلوچ نسل کشی میں ایسے اتحادی بھی جنگی جرائم کی ارتکاب میں شامل ہیں۔
بلوچ قومی تحریک آزادی کی کامیابیوں سے پاکستان کو یقین ہوچلاہے کہ اب بیرونی امدادیا ساجھے داری کے بغیربلوچ آزادی کی تحریک کوکاؤنٹرنہیں کرسکتاہے۔ اس لئے ہماری سرزمین ،چین کو اونے پونے داموں اس کی معاشی اور تزویراتی مفادات کے لئے بیچ رہا ہے ۔اس کے ساتھ ہی پورے بلوچستان جہاں عالمی قوتوں کے سیاسی ،معاشی ،طاقت کے توازن کی جنگ ،عسکری اور مستقبل کے تزویراتی مفادات وابستہ ہیں ۔گوادر پورٹ،پاکستان اکنامک کوریڈورسمیت دیگرمیگاپروجیکٹس کی تکمیل اورفعالیت کے لئے دشمن نے اتحادیوں کی مکمل مجرمانہ تعاون اوراقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کی خاموشی سے تمام جنگی قوانین کی دھجیاں اڑا دیا ہے۔ ان تمام مظالم کے باوجودبلوچ قوم اس امتحان کی گھڑی میں سرخ رو ہورہا ہے ،اورتمام تر جبر ودہشت خیزی کے باوجود یہاں متنوع مفادات رکھنے والے طاقت آسانی سے اپنے مفادات حاصل کرنے میں اب تک ناکام ہیں ۔بلوچ نسل کشی ،روزانہ کی بنیادوں پر پوری پوری بستیوں کوجلانے کے باوجود یہاں میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مکمل مجرمانہ خا موشی انہیں تاریخ کے سامنے مجرم بنارہا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اس جرائم میں دانستہ شریک ہورہے ہیں جنہیں انسانی حقوق اور انسانی آواز سے پاکستان زیادہ عزیز ہے جو مکمل فریق بن چکے ہیں ۔بلوچ پاکستان کے خلاف آج اکیسویں صدی میں جس طرح آگے بڑھا ہے جس کے نتیجے میں آج بلوچستان ایک مکمل وار زون بن چکا ہے اور دنیا جلد یا بدیر اس بات کو تسلیم کرے گا کہ واقعتا یہا ں ایک ایسی تنازعہ موجود ہے جس کی وجہ سے بلوچ سرزمین مکمل وارزون کی شکل اختیار کرچکا ہے اور پاکستان یہاں جنگی جرائم کی ارتکاب کررہاہے۔خطے میں طاقت کے توازن کی جنگ میں چین نہ صرف انڈیا بلکہ دیگر عالمی طاقتوں کے مقابلے میں مضبوط پوزیشن اور قائدانہ رول کے لئے بے تحاشا پاکستان کی مدد کررہا ہے۔بلوچستان میں گوادر پورٹ اور اکنامک کوریڈور سمیت دیگر میگا پروجیکٹس چین کے واضح طورپر سامراجی عزائم ہیں کہ وہ اس خطے میں اپنی اثرو رسوخ بڑھانے کے لئے خطرناک حد تک پاکستان کی بھرپور مدد کررہاہے۔ دنیا کے اپنے اپنے مفادا ت نے انہیں خاموش کردیا ہے وقت آنے پر انہیں اس عمل کی سنگینی کا ضرور احساس ہوگا،لیکن بلوچ قوم قطعی طورپر پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کے عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دے گا اور اس کے لئے قیمت ادا کرتا رہے گا۔ہمیں یقین ہے کہ ہماری قومی جدوجہد سے چینی عزائم خاک میں مل جائیں گے۔ ماضی میں اس خطے میں عالمی طاقتوں نے قومی جدوجہدوں کو کچلنے اور اپنی مفادات کے لئے جس طرح مذہبی انتہا پسندی کی آبیاری کی وہ ایک دیو بن چکا ہے جو اس خطے میں انسان ،انسانیت ،قومی تہذیبوں اور انسانی وراثت کے حاصل کو بے دردی سے نگل رہا ہے ۔یہ سب عالمی طاقتوں کی اپنی مفادات اور مختلف خطوں کو کنٹرول کے لئے پراکسی جنگوں کا شاخسانہ ہیں ۔وہ آج ایسی وار لارڈز بن چکے ہیں یا ایسی ادارہ بن چکے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی و اخراجات کڑوروں امریکی ڈالر میں ہے۔ یہ کسی مثبت نظریے کی نہیں بلکہ استعماری اور توسیع پسندانہ عزائم کی پیداوار ہیں جو آج طاقت و قوت اتنی حاصل کرچکے ہیں کہ ان کی خالق بھی انہیں اپنے لئے ایک تھریٹ سمجھتے ہیں اور ہم نے بارہا واضح کیا ہے۔ اس سکول آف تھاٹ کو وجود میں لانے میں یہی طاقت ملوث رہے ہیں آج اس کادنیا کے مبصرین کسی حد تک اس کا اعتراف کررہے ہیں ۔جب ہم خطے کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ کرتے ہیں تواس کا نتیجہ یہی نکل آتاہے کہ 11ستمبر 2001ء کے بعد دنیا دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کی ابتدا کرتا ہے تو ان سے بنیادی غلطی یہی سرزد ہوجاتی ہے جو پاکستان پر انحصار اور اعتبار کرتے ہیں۔ تو یہ جنگ جس میں پاکستان شامل ہوتا ہے اس سے دہشت گردی کے خاتمے کی بجائے اسے نئی بنیادیں اور نئی صف بندیوں کوایک باقاعدہ ریاست کی سرپرستی مل جاتا ہے۔ آج دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی کا واقع رونما ہوجاتا ہے تو اس کی تاریں بلواسطہ یا بلاواسطہ پاکستان سے ہلائی جاتی ہیں۔ اس کا اس سے بڑا ثبوت او ر کیا ہوسکتا ہے کہ دنیا کو سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد اسامہ بن لادن پاکستان کے ایک بڑی فوجی اکیڈمی کے پناہ میں پایاگیا اورپاکستان دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ مشرق وسطی میں ایک طرف اتحادیوں کی جنگ ہے تو دوسری جانب ہم دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب جیسے بڑی معاشی طاقت ایک وقت میں اسامہ کے جملہ اکاؤنٹ کو منجمد کرتا ہے اورانہیں اپنے لئے مکمل خطرہ رؤقرار دیتا ہے لیکن اسی دوران وہ طالبان کی نہ صرف بے تحاشا مالی مدد کرتا ہے بلکہ انہیں افرادی قوت بھی فراہم کرتا ہے اور اپنے وہابی نظریات کی فروغ اور اس کے ذریعے طاقت حاصل کرنے یا اپنے پراکسی کے طورپر استعمال کی پالیسی پر گامزن ہوتا ہے۔ آج یمن میں القاعدہ کے ساتھ ہوثی باغیوں کے خلاف اور شام میں بشرالاسد کی حکومت کے خلاف مختلف دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اتحاد ہے۔ مذہبی انتہاپسندوں کو مختلف ممالک اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں تاکہ وہاں قومی جدوجہد اور تحریکوں کو کچلا جاسکے۔ اور انہی گروہوں کو معاشی اور سیاسی حمایت مل رہا ہے جو آئی ایس آئی ایس کے ہاتھوں بیعت کررہے ہیں ۔آج خطے میں نئی صف بندیا ں زیادہ ہورہے ہیں اور اس سے خطے میں موجود تضادات حل ہونے کے بجائے مزید آتش فشان بنتے جارہے ہیں۔ اب دنیا کے آئیڈیل حکمت عملی کیا رہ جاتا ہے ان تمام تضادات اور خطے میں دہکتی ہوئی آگ کو بجھانے یا تضادات کو حل کرنے کا بنیادی اور واحد ذریعہ نیشنلزم کے نظریے کی بنیا دپر تنازعات کاحل ہے۔ دنیا اس نظریے سے جتنی زیادہ فرار اختیار کرتا ہے خطے میں امن وخوشحالی کے امکانات مزید مفقود ہوتے چلے جائیں گے ۔
ہم نے دنیا کو ہمیشہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا میں انسانی اقداراورامن و خوش حالی کو تہہ وبالاکرنے کے لئے مذہبی شدت پسندی ایک تھریٹ کی شکل میں سامنے آرہا ہے ۔اس کی سدباب کے لئے قومی ریاستوں کو قبول کیا جائے ۔قومی ریاستوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔قومی سرزمینوں پر قوم پرست قوتوں کو جب اختیا ر مل جائے تو ان کی روک تھام ممکن ہوسکتا ہے۔ جہاں ناکام ریاستیں ہیں یا وہ ریاست ایسے گروہوں کو اپنے اپنے مقاصد کی حصول کے لئے استعما ل کرتے ہیں ایسے ریاستوں کی سیاسی وعسکری امداد بند کی جائے اور ان کے زیر قبضہ قوموں کو آزادی دلانے میں مدد دی جائے ۔اجلاس جاری ہے۔