دنیا بھر میں بالخصوص دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک خالص نیشنلزم کی سوچ قابض سے جان چھڑانے کے لیے ایک نظریے کا شکل اختیار کرچکا ہے بہت سے دانشوروں جیسے کہ ابدن نصر، امرسن، اوین، پراٹ اور ریولن نے کہا کہ قابض قوتوں کے ہوتے ہوے نیشنلزم ناگزیر ہے، یعنی نیشنلزم کی فطری اور دبی ہوئی چنگاری کو ہوا دینے کا سب سے بڑا محرک خود قبضہ گیر ہے، کیونکہ قابض کی ناانصافی ، عدم مساوات اور نابرابری نے نیشنلزم کو ابھرنے کا موقع دیا ،ولسن کے 14پوائنٹ اور لیگ آف نیشن کی بنیاد اور اقوام متحدہ کے قیام نے سامراجی اور قابضہ گیر حکمرانی کو غیرقانونی قرار دیا ااور قوموں کی آزادی کو انکا بنیادی حق قرار دیا ،انہی اصولوں کی بنیاد پر 60کے عشرے میں زیادہ تر افریقی ممالک قابض قوتوں کے چنگل سے آزاد ہونے میں کامیاب ہوگئے اور وہ آج اپنی سرزمین پر خود حکمرانی کررہے ہیں ۔نیشنلزم اور قومی آزادی جسم اور روح کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اگر نیشنلزم جسم ہے تو قومی آزادی اسکی روح ہے اگر نیشنلزم جسم ہے تو قوآزادی اسکی آکسیجن ہے ، دنیا میں قریبا تمام تر نیشنلسٹ جد وجہد کااولین اور بنیادی ہدف اور نصب العین قومی آزادی رہا ہے۔ ایڈمنڈ برک نے کہا کہ یورپی نیشنلزم کی تشدد اور کلچر گھمنڈو غرور50 کی دہائی کی آزادی کی تحریکوں کا سبب بنا جبکہ ہنری مور اورنکولافرٹ نے کہا کہ یوروپین حکمرانی نے اپنی تباہی اور بربادی کی تخم اوربیج خود بویا ۔کیونکہ یورپی قابض حکمران مظلوم اور محکوم اقوام پر غیر فطری اور قدرت کے قانون کے خلاف حکمرانی کررہے تھے جبکہ نیشنلزم کی جہد قدرت کے قانون اور فطرت کے عین مطابق تھا اس لیے یورپی ممالک اپنی طاقت و قوت اور ظلم و جبر کے باوجود محکوم اقوام کو غلام بنانے میں ناکام ہوگئے ،نیشنلزم کی جہد کو اپنے لوگوں اور قوم میں چھان بین اور گہری کھوج اور متجسُس نگاہ ڈالنے کی ضرورت نہیں تھی جبکہ قابض محکوم اقوام پر ہر وقت متجسُس نگاہ ڈالے ہوئے تھے ۔ایک طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب ایک قوم اپنی غلامی کو سمجھ کراس کے خلاف بیداری سے اٹھ کھڑا ہوجاتا ہے تو قابض کو خود بخود ایک نئی ابھرتی ہوئی دشمن کا سامنا کرنا پڑیگا، وہی لوگ جو کل سورہے تھے، بیگانہ تھے اور قابض کے ساتھ گل مل گئے تھے مگر اب وہ ایک دوسرے سے بیگانہ بنے ہوئے ہیں یعنی پہلے خودآپس میں ایک دوسرے سے بیگانہ تھے مگر اب اصل معنوں میں قابض کو ایک بیگانی قوت سمجھ چکے ہیں،یہی ایک عنصر ہے جو قابض کو مقبوضہ علاقوں میں ہمیشہ ایک مخاصمتی صورتحال سے دوچار کیئے رکھتا ہے۔دنیا کی زیادہ تر تاریخ میں قابض کی قبضہ گیریت کو چلنج کرنا یا اسکی مخالفت کرنا ایک طرح کی الجھادینے والی کفیت اور حیران کردینے والا مسئلہ رہا ہے کیونکہ اس میں مظبوط اور طاقتور ملک کے خلاف اجتماعی اقدام کا تقاضا ہوتا رہا ،وہ لوگ جو نوآبادیاتی جبر کو سمجھ کر اور قومی آزادی کے جذبے سے سب سے پہلے سرشار ہوئے ان کے لیئے لازم تھا کہ اپنے لوگوں کے اندر آزادی کی اس فطری قانون کے بارے تبلیغ کریں،اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر قابض کے لیئے ایک ایسی صورتحال تخلیق کریں جہاں اسے اجتماعی حوالے سے نفرت و حقارت کے ساتھ ساتھ قومی غیرت و حمیت کا سامنا ہو،نوآبادی کا قومی آزاد ریاست میں تبدیل ہونا تاریخ میں مدوجزر کے ساتھ ہوتا رہا ہے ،لیکن اسکی اساس دو چیزوں پر بنی رہی ایک قابض کی طرف سے جبر اور دوسری طرف لوگوں کا بیدار ہوجانا،ان دونوں کا تناسبی حوالے سے کافی گہرا تعلق ہے،ایک بحث پورے یورپ میں ہوا کہ کیا قومی آزادی محکوم اقوام نے خود اپنی طاقت سے حاصل کئے یا کہ نوآبادیات سے دستبرداری کی صورت میں انھیں قومی آزادی ملی ،پھر ایک بحث پورے یورپ میں ہو ا کہ نیشنلزم کا مقصد سلطنتوں کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ الگ ریاست کی تعمیر تھا پھر ایک اور بحث نے سر اٹھایا کہ بڑی بڑی سلطنتیں ختم ہوسکتی ہیں پھر نیشنلزم کیوں ختم نہیں ہوسکتا ہے ،روم سلطنت ختم ہوسکتا ہے،آسٹروہنگری سلطنت ٹوٹ سکتا ہے ،سلطنت عثمانیہ منہدم ہوسکتا ہے ،گریں کولمبیا سلطنت دھڑام سے گرسکتا ہے مگر نیشنلزم ختم نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ نیشنلسٹ جدوجہد فطری جدجہد ہے اور یہ جو سلطنتیں زمین بوس ہوئے سب غیر فطری تھیں اور غیر فطری چیز زیادہ دیر قائم و دائم نہیں رہ سکتا ہے۔ نیشنلزم ایک سیاسی نظریہ ہے جس کے مطابق سیاسی اور قومی یونٹ موافق ہوں قوم پرستانہ نظریہ سیاسی اداروں اورلوگوں میں مطابقت کا نام ہے ،نیشنلزم کی اصول کے مطابق دنیا اقوام میں تقسیم ہے اور اقوام آزاد ہیں اور وہ آزادی ریاستی حیثیت میں دلالت کرتا ہے the nationalism reader کتاب میں لکھا ہے کہ : جیساکہ روح زمین دریاوں ، پہاڑوں، اور سمندروں کے زریعے منقسم ہے اسی طرح یہ انسان کو بھی کئی حصوں میں بانٹتا ہے لہذا ایسے میں کئی ایک ریاستوں کا وجود میں آنا ایک ناگزیر عمل تھا، اگر ان دو آازاد ریاستوں کے لوگ کسی بھی وجہ سے ایک دوسرے سے کوئی غرض وغایت رکھیں تو ان میں سے دونوں کو ایک دوسرے سے اپنی حفاظت کے حوالے تشویش کا احساس پیدا ہوگا، لہذا اس احساس کی بنیاد پر وہ ہمیشہ ایک دوسرے کو اپنے زیر دست لانے کی کوشش میں لگے رہیں گے۔ کتاب میں آگئے لکھا ہے کہ زمین مقدس ہوتا ہے اور اس زمین پر مقدس ،شریف النفس اور عالی ظرف لوگ وہ ہیں جو زمین کی خاطر اپنا سب کچھ تیاگ دیتے ہیں کیونکہ قوم ،لوگ ، وطن اور جنم بھومی ہی ،ہمیشگی اورابدیت کی گارنٹی ،ضامن اور سہارہ ہوتا ہے ۔ریاست کا مقصد قانون مثبت ،اندرونی امن و انتظام ،معاملات اور امور کی حالت ہے جہاں پر ہر کوئی معقول حفاظت میں اپنی زندگی کی جائز ضروریات پورا کرسکیں یہ تمام ایک ذریعہ ،حالت ،کیفیت اور بنیادی ساخت ہے کہ ہر کوئی اپنے آبائی وطن اور قومی ریاست کواپنی زندگی سے زیادہ چاہتا ہے کتاب میں مزید کہا گیا ہے کہ : عالی ظرف لوگ نہ صرف آئین و قانون سے محبت کرتے ہیں بلکہ جو حقیقی قوم دوستی کا جو آگ ان کے اندر لپک رہی ہوتی ہے وہ پوری قوم کو ایک ابدیت کے لبادے میں اوڈھ لیتا ہے اور اسی لیئے شریف النفس لوگ خوشی خوشی اپنے وطن اور قوم کے لیے اپنی ذات کی بھلی چڑھادیتے ہیں۔جرمن قوم جس کو مختلف قومیتوں اور طاقتوں نے ہضم کرکے جزوبدن بنایا ہوا تھا اس کے بارے میں رومن لکھاری نے لکھا کہ : اب ان کے لیئے اس کے علاوہ اور کیا رہ گیا تھا کہ یا وہ اپنی آزادی کو برقرار رکھتے یا پھر غلام بننے سے موت کو ترجیح دیتے، ان کے آزادی کا حقیقی مطلب یہ تھا کہ وہ جرمن بن کر رہیں اور اپنے معاملات کو خود اپنی ہی قومی جذبے کے تحت آزادانہ حیثیت اور اپنی نسلی اعتبار سے سلجھائیں اور اسی جذبے کے ساتھ اپنی آزادانہ حیثیت کی تبلیغ کو اپنے آنے والے نسلوں تک منتقل کریں،جو مہربانیاں انہیں رومن کی طرف ملی تھیں وہ غلامی کے زمرے میں آتے تھے وہ ان مہربانیوں سے کچھ بھی بنتے پر جرمن نہ بن پاتے، انہیں آدھا رومن بن جانے سے مرجانا ہی پسند تھا وہ سمجھتے تھے کہ ہر آدمی آدھا رومن بننے سے بہتر ہے کہ مرجائے، ان کے لیئے بس ایک ہی نظریہ تھا کہ ایک حیقیقی جرمن صرف اس وقت زندہ رہ پاتا ہے جب وہ ایک مکمل جرمن بن کر جیئے اور اپنی آل اولاد کو بھی جرمن بنائے، آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بننا انکے لیئے موت کے مترادف تھا۔ اس طرح کے لوگوں نے دنیا کی تاریخ میں فتح اور غلبہ حاصل کیا کیونکہ eternity ہمیشگی وابدیت قوم وطن اور قومی ریاست نے ان میں ولولہ اور جوش پیدا کیا ،انسان ایک وقتی مسافر ہے اور وہ اپنے حصے کی زمہ داریاں نبھا کر یا انہیں نظرانداز کرکے، دونوں صورتوں میں اس دنیا سے ایک نامدار یا گمنام ہیرو کے طور پر رخصت ہوتا ہے یا پھر خاموشی کی موت مر کر بھول بھال جاتا ہے، انسان جان لیوا خطروں کا سامنا کرے یا نہ کرے لیکن موت ایک ابدی حقیقت ہے جو اسکا سامنا ضرور کریگا، لیکن ایک انسان کے برعکس انسانوں کی مجموعی جد و جہد پر منحصر ریاست کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے، ریاست اس لیئے بھی افضل ہے کہ وہ آنے والے نسلوں کو منتقل ہوتی رہتی ہے لیکن اسکی شان اور منزلت کبھی ختم نہیں ہوتی،انسانی جد وجہد اور اسکی تسلسل اس ابدیت کی ضمانت فراہم کرتے ہیں،یہ نہ مظبوط فوج ہے اور نہ ہی کارگزار ہتھیار ہے جو فتح حاصل کرتا ہے بلکہ رُوح کی طاقت ہے جس سے فتح اور کامرانی حاصل کی جاتی ہے اسی روحانی طاقت سے جرمن قوم نے خود کو دنیا میں ایک قوم اور طاقت کے طور پر منوایا ۔نیشنلزم کو مزید بہتر انداز میں روسی دانشور اور قوم پرست Aleksander solzhenistsyn الیکزینڈرسلزینسٹائن نے قابل فہم بناتے ہوئے کہا کہ : کسی بھی چیز میں وہ طاقت موجود نہیں جو ہمیں یہ باور کراسکے کہ ہماری بھوک، افلاس، ہماری غربت، ہمارے لوگوں کی بہیمانہ قتل عام اور ہمارے بچوں کی نسل کشی یہ سب عوامل ملکر ہماری قومی تفاخر اور شان پر سبقت لے جائیں گے، فرنچ شاعر ادیب مصنف Charles Maurrasنے قوم پرستی کے حوالے کہا کہ : ہم اپنے امیدوں کو برقرا ر نہ رکھ پاتے اگر ہمارے زہنوں میں ہماری قومی شان اور فخر ہمارے رہنمائی نہ کرتی، دنیا میں کوئی بھی شئے قومی شان اور اس سے ملنے والے تفاخر کے برابر نہیں ہوسکتی۔ بقول چینی قوم پرست لیڈر سن یات سین قومی فخر سے قوموں نے اپنی آزادی لی اور ایک قوم نے زیادہ سے زیادہ ممالک پر قبضہ بھی کیا یورپی چار نسلوں نے قومی غرور اور ناز سے زیادہ سے زیادہ ممالک پر قبضہ جمایا Teutonsجھنوں نے شمالی یورپ میں بہت سے ممالک دریافت کئے جس میں مضبوط جرمنی تھا اور باقیوں میں آسٹریا،سویڈن،ناروئے ،ہولینڈ ،اور ڈنمارک شامل تھے جبکہ مشرقی یورپ میں slavs نے روس ،چیکوسلاواکیہ ،یوگوسلاویہ،کی بنیاد رکھا ،دوسری طرف saxons یا کہ Anglo Saxonsنے برطانیہ کو قائم کیا اسی طرح جنوبی یورپ میں لاطین latinsنے متعددممالک کی بنیاد رکھا جس میں فرانس ،اٹلی،اسپین،اور پرتگال شامل ہیں ان ممالک نے دنیا پر بعد میں قبضہ جمانا شروع کیا اور زیادہ تر ممالک انکی زیردست تھے انکی صرف ایک وجہ تھی کہ سفیدفام نسل کی قومی اسپرٹ انکے ہاں فروغ پاچکا تھا ۔ پورپ کے ایک قوم انگلوسیکسن کی ایک وقت حکمرانی کا سورج غرو ب نہیں ہوتا تھا امریکہ نیوزلینڈ افریقہ سے لیکر ہندوستان تک اس نے قبضہ کیا ہو ا تھا کیونکہ بقول سن یات سن انھیں اپنی قوم پر ناز غرور اور فخر تھا انھوں نے اپنی نیشنل اسپرٹ سے پوری دنیا قبضہ کیا teutons قوم کی تیز فہمی زیرکی اور قابلیت کی وجہ سے جرمن 20چھوٹے ممالک کو ایک جرمن یونین میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے شروع میں ایک زرعی ملک سے اسے صنعتی ملک میں تبدیل کیا جہاں صنعتی خوشحالی سے اسکی نیوی اور فوج بھی طاقتور ہوا ،حالانکہ پھر یہ یورپی اقوام ایک دوسرے سے قومی ،تجارتی ،صنعتی برتری کے لیے بھی لڑے ،سیکسن اور ٹیوٹونک نسل کی رقابت سمندر کے کنٹرول پر شروع ہوا جو بعد میں جنگ عظیم کا بھی سبب بنا ،جرمن اور برطانیہ سمندر ون پر اپنی بالادستی کے لیے جنگ میں بھی کود پڑے ۔ جمیکاکی قوم پرست لیڈر مارکوس گاروی نے نیشنلزم کے حوالے کہا افریقہ کے لوگ غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور انکی غلامی سے نجات کا زریعہ نیشنلزم ہے اس نے کہا کہ دشمن افریقی نجات اور آزادی کو نامُمکن اور محال بنانے کے لیے تمیں دلائل پیش کرے تو تم کہنا کہ تیرہ امریکین کالونی برطانیہ سے اپنی آزادی لے سکتے ہیں ،جارج واشنگٹن کوئی خدا نہیں بلکہ وہ تم نیگرو ں کی طرح کا کوئی انسان تھا ،جب وہ اور انکے ساتھی ایک آزاد امریکہ بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں تو افریقہ کے نیگرو کیونکر نہیں ہوسکتے ہیں ،John Hampden،Gladstoneاور،Disraeliبھی خدا کے نمائندے اور حضرت عیسی کی شکل میں زمین پر وارد نہیں ہوئے بلکہ ہماری اور تماری طرح کے انسان ہی تھے جنھوں نے برطانیہ کی سلطنت کی پھیلاوُاور توسیع کے لیے کام کیا اور اسے ایک عظیم سلطنت میں تبدیل کردیا،جس طرح Hampden ,Gladstoneاور نے برطانیہ کو طاقت بنانے کے لیے کام کیا اسی طرح نیگرو بھی اپنی قوم کو طاقت بنانے کے لیے کرسکتے ہیں کیونکہ وہ بھی انسان تھے اور ہم بھی انسان ہی ہیں ،اسی طرح والٹیئراورمیرابوMirabeauبھی یسوح مسیح اور کوئی آسمانی فرشتے نہیں تھے بلکہ ہماری طرح کے انسان ہی تھے جنھوں نے اپنے ارادوں سے مظبوط ہوکر فرانس کی شہنشاہی اور بادشاہی نظام کو تہ بالاکرڈالا Declaration of the Rights of Man and of the Citizenکو انھوں نے فرانس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں متعارف کروا لیا ان تمام قوم پرست لیڈروں اور دانشوروں کی رائے سے ایک چیز واضح اور ثابت ہے کہ قوم اور ملک ہم معنی اور سائنونائمس ہیں ، قومی عقائد ،ریت ثقافت ،تاریخ،نفسیاتی ساخت ،،قومی جذبہ اور احساس کے بغیر ریاست پراختیاراور بالادستی ناممکن ہے کہ دوسرے قومیتون کو برقرار رکھ سکیں ، سویڈن کی ڈنمارک سے ،ناروئے کی سویڈن اورفین لینڈ کی سویڈن اور روس سے آزادی ،بلجیم اور نیدرلینڈ کی تقسیم ،باقی افریقہ کے تمام نوابادیات کی آزادی ،گریں کولمبیا کی سلطنت کی تقسیم ،روس،سلطنت عثمانیہ کی تقسیم اور ہندوستان ،برما،ویتنام ،اور بنگلہ دیش کی پاکستان سے قومی آزادی اسکی واضح مثالیں ہیں اسی طرح بلوچ قوم بھی ہزاروں سال کی تاریخ کے ساتھ زندہ ہے ،بلوچستان جو 560000مربع کلومیٹر پر پھیلاہوا ہے ایک بڑا ملک ہے جو رقبہ کے لحاظ سے برطانیہ،سنگاپور،جاپان سے بھی بڑا ہے انگلوسیکسن اورٹیوٹنس کی طرح اس وقت کے بلوچوں نے بھی سیوی ،قلات اور بمپور کی شکل میں نیم قومی ریاست کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی بعد میں 1666میں قلات کو ریاست کی شکل دی گئی ،۔حالانکہ اپنی حکمرانی کا رٹ بحال رکھنے کی خاطر بلوچوں میں آپسی لڑائیاں بھی ہوئی میر چاکر اور گوہرام کا قلات پر قبضہ بعد میں رند لاشار کی آپسی لڑائی ،میرنصیرخان کا مکران پر حملہ جس میں میرنصیر خان نے اپنی قومی ریاست میں اپنی رٹ کی بحالی اور احمد شاہ کی مداخلت پر میرعمربن دینار گچکی کو کہا کہ وہ انکی خدمت میں حاضرہوکر اطاعت قبول کرے اطاعت قبول نہ کرنے کی صورت میں نصیرخان نے کیچ پرقبضہ کیا جو کچھ نصیرخان نوری خان اور عبداللہ خان قہار نے کیا اس وقت کے ریاست کو وسعت دینے اور ریاستی رٹ کو بحال کرنے کے لئے ضروری تھا ،بقول گل خان نصیر عبداللہ خان قہار قول کاپکا،تلوار کادھنی ہر خطرہ اورمصیبت کا جانمردی اور استقلال سے ڈٹ کرمقابلہ کرنے والا نڈربلوچ تھا کچھی تاڈیرہ جات ہلمند ،،مکران،تا بندرعباس تک کے علاقے اس نے فتح کئے کچھی اور سندھ میں وہ پہاڑی عقاب کے نام سے مشہور تھا لوگ اور بلوچ ادیب اور شاعر انھیں قہارخان کے نام سے جانتے ہیں اس نے وطن اور سرزمین کے حوالے کہا کہ کوہنگ ءِ اے کوہیں قلات ،کسی پت ءِ میراث نہ انت ،ماگوں سگاراں گپتگ انت ،حالانکہ کچھ لوگ نصیر خان نوری کی مکران پر حملہ کو زیادہ تنقید کرتے ہوئے اسے قومی ہیرو ماننے سے بھی انکاری ہیں کہ اس نے مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کی ہے جبکہ یہ دلیل اس وقت کے زمینی حقائق سے موافق نہیں ہے ،کیونکہ ہم 17 ویں صدی کے نصیرخان نوری کو اکسویں صدی کے سیاسی تقاضے پورے نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں جو کہ تاریخ کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے شاید اس وقت یورپ سے لے کر کے روس اور دیگر براعظموں تک میں چرچ، پادریوں اور مذہبی اداروں کی حکومتیں قائم تھیں،حالانکہ چاکر ،گوہرام ،کے دور اور نصیرخان نوری کے دور میں ہندوستان میں اقتدار کی خاطر بھائی بھائی کی �آ نکھیں نکال رہے تھے ،چین میں آپسی لڑائیاں عروج پرتھی ،یورپ تو آپسی لڑائیوں کی وجہ سے کھنڈرات بناہوا تھا فرانس جہاں پر انسانی حقوق برابری اور مساوات کا نعرہ بلند ہوا ، کارولنژی سلطنت کے بانی اور فرنچ ہیرو شارلیمین نے بھی نصیر خان کی طرح مذہب کے نام پر اتنا قتل و غارت کیا کہ کسی اور نے نہ کیا ہوگا لیکن فرانس کے لوگ آج بھی اسے اپنا قومی ہیرو مانتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں ،لیکن بلوچ قوم کے تمام ہیروز اور کردار کو پاکستانی نصاب اور سلیبس میں قصدافراموش کرکے سنٹرل ایشیا کے چور اور قزاکوں کو پنجابی کا ہیروز کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم پر بھی مسلط کیا گیا۔ پاکستان سے گلہ اس لیئے نہیں کہ ہم ان سے کوئی امید نہیں رکھتے ہیں انکا یہ شامل کرنایا نہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن صرف یہ بات واضح رہے کہ پاکستانی ریاست بلوچ قومی ریاست کے ضد میں کھڑی ہے وہ ہمیں کبھی ہمارے ہیروز کے بارے میں مثبت انداز میں نہیں کہے گا اور نہ ہی کہنے دیگا، پھر قبضہ گیر کے پروپگینڈے سے بلوچ ہیروز اور کرداروں کو متنازع بنانے کی کوششیں ہوئیں تاکہ بلوچ کا رشتہ اپنی تاریخ سے کٹ کر رہ جائے اور وہ غوری ،غزنوی،جناح،اقبال ،اور سیداحمد کو اپنا مان کر اپنی نیشنلزم سے دور ہوجائیں اور آج پاکستانی تمام پارلیمانی لوگ اور قابض کی قبضہ گیریت کو قبول کرنے والے لوگ بھی اس ریاستی پرو پیگنڈے کی وجہ سے آدھے بلوچ اور آدھے پاکستانی بن چکے ہیں ،اس لیے وہ نیشنلزم سے دور ہیں اور قومی ہیروز ،بلوچ تاریخ ،قومی اقدار ،اور ثقافت کو نزاع انگیزی اور مباحثہ جوئی سے غلط ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں تا کہ بلوچ نیشنلزم کی جڑ وں کو کمزور کرسکیں ،کیونکہ نیشنلزم قومی ہیروز ،تاریخ،ثقافت ،نفسیاتی ساخت ،مشترکہ مفادات سے مظبوط ہوتا ہے اور قابض انہی جڑوں کو کاٹنے کی کوشش کررہا ہے ،کیونکہ اس سے اسکی قبضہ گیریت کو خطرہ لائق ہے قابض جانتا ہے کہ نیشنلزم اور قومی ریاست لازم و ملزوم ہیں اور اگر بلوچ نیشنلزم کے ساتھ جڑے رہے تو پاکستان جبر زوراکی ،تشدد،سے اپنی ناجائز قبضہ کو برقرار نہیں رکھ سکتا ہے کیونکہ اگر ظلم جبر اور ٹینک ،جہازاور ایٹم بم سے دوسرے قومیتوں کو ایک ساتھ رکھنا آسان ہوتا تو آج روس ،نہیں ٹوٹتا اور امریکہ ویت نام ،برطانیہ ہندوستان ،فرانس الجزائر،سے نہ نکلتے،اب بلوچ قوم بھی پاکستانی قبضے سے نجات اور ایک بہبودی اورفلاحی ریاست بنانے کے لیے خالص قومی جذبے سے جدوجہد کررہے ہیں یہی قومی جذبہ ہی ہے جو ہمیں اپنی منزل تک لے جاسکتا ہے جس طرح مارکوس گاروی نے جارج واشنگٹن کے بارے میں کہا تھا اس طرح آج دنیا کی تاریخ کہے رہی ہے کہ ہوچی منہ،بن بیلا،شناناگوژماوُ بھی کوئی فرشتے اور پیغمبر نہیں بلکہ عام انسان تھے جنہوں نے اپنی قومی آزادی حاصل کی ۔توآج ہمیں بھی خود سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے کہ بلوچ قوم کیونکر اپنی قومی آزادی حاصل نہیں کرسکتا ہے ۔ جرمن ،فرنچ،روسی،جاپانی ،چینی اور بنگالی اپنی قومی جذبے سے سرشار قومی فخر اور غیرت،سے قومی ریاست حاصل کرکے ترقی کرسکتے ہیں تو پھر بلوچ کیونکر اپنی قومی فخر ، حمیت، غیرت اور اجتماعی جذبے سے ایسا نہیں کرسکتا ہے ؟ وہ بلوچ جو خود کی پہچان صرف بلوچ کے طور پر کرچکے ہیں جنھیں اپنی قوم سرزمین اور وطن پرناز ہے ہمیشگی اور ابدیت نے ان میں جوش جزبہ اور ولولہ پیدا کیا ہے اور وہ لوگ اپنے وطن کی آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ تیاگ دے رہے ہیں وہ شریف النفس اور عالی ظرف لوگ زمین اور وطن کو سب کچھ جان چکے ہیں اور اسکی خاطر سب کچھ تیاگ دینے پر تیار ہیں اس لئے وہ سرزمین میں عالی ظرف اور عالی نسب لوگ ہیں اور انکا رشتہ زمین کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اور وہ بلوچ جو بلوچ قومی مفادات کے بجائے پاکستان کی مفادات کی بات اور پرچار کرتے ہیں جو شہر عالم کی وکالت کرتے ہیں اس غلامی میں قابض کی ترجمان بن کر اپنے ہی لوگوں اور اپنی قومی شناخت،پجار،سے دستبرار ہوکر پاکستانی قوم بن رہے ہیں جن کا بلوچی غیرت، اسپرٹ مرچکا ہے یہ لوگ احساس کمتری اور لالچ سے اپنی قومیت سے دستبردار ہو کر پاکستانی قومیت اپناچکے ہیں اور خود کو پاکستانی قوم میں جزوبدن بنا نے کی کوشش کررہے ہیں ،ایسے لوگ قوموں کی تاریخ میں اچھُوت سے بھی بدتر ہونگے ،جنکی مثال بنگال کے بہاری ،ہندوستان کے جعفر وصادق،ناروئے کے کوسلنگ اور کے اے بورسیا جیسے لوگ ہیں جو اپنی قوم سے ہٹ کر دشمن کی مدد اور کمک کرتے تھے اور قوموں کی تاریخ کے جبر نے انکے اور انکے نسلوں کے پاوُں کے نیچے سے زمین کینچ لی اور آج وہ خود لعنت کی نشان بننے کے ساتھ ساتھ انکی نسلیں بھی اپنی ہی قوم میں اچھوتوں کی طرح زندگی گزار رے ہیں ۔آج کا دور تاریخ سازہے اور کچھ لوگ صبا ،بالاچ مری،غلام محمد،اکبرخان بگٹی،حمیدشاہین،درویش،یوسف نظر،امیر،سمیت ہزاروں شہدا کی طرح قومی ا سپرٹ ،ہمیشگی اور ابدیت جیسی مقدس اور پاکیزہ کاز کی خاطر قربان ہوکر شریف النفس اور عالی ظرف بلوچوں کے صفوں میں شامل ہوگئے ہیں جبکہ باقی لوگ جو سرنڈر اور غداری کرکے قوم اور قومی آزادی کے خلاف اغیار کی مدد کررہے ہیں وہ اچھوت کالیبل اپنی نسلوں کو وراثت میں دیکر بلوچ تاریخ میں شرم سار ہورہے ہیں ۔بلوچ قومی جہد صاف ،واضح اور قطعی قوم پرستی کی جدوجہد ہے اور اسے سوشلزم ،کمیونزم،وغیرہ سے آمیزش کرنا کسی بھی طرح قومی جہد کے لیے نیک شگون نہیں ہے اور نیشنلزم میں قوم کے تمام طبقہ کے لوگ جدوجہد میں اپنی قومی اسپرٹ اور جزبہ اور جوش ولولہ سے حصہ لے سکتے ہیں ایک مقبوضہ قوم کی حیثیت سے ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم صرف قومی سوال کے گرد اپنے جمع ہوجائیں، جب دشمن سرحدوں سے اس پار ہوگی تو پھر سرحدوں کے اندر موجود گوناگوں مسائل سے نمٹنے کا سعی لازم ہوگا، ابھی ہم سب کا ایک مقصد ہے کہ بلوچ نسل کشی کو کس طرح رکوا کر دشمن کو اپنی سرحدوں سے باہر دھکیلنے میں کامیاب ہوجائیں، لہذا ہم سب کا نصب العین قومی ریاست کی تشکیل اور پھر حب الوطنی سے اپنی قوم اور ملک کی ترقی اور خوشحالی ہونا چاہیے ،دنیا کے تمام محکوم اقوام اسی راستہ پر چل کراپنی منزل پر پہنچ چکے اور اب بلوچ قوم بھی اسی ہی راستہ میں سفرکرنے کے عمل میں ہے باقی جس طرح اپنی قومی اسپرٹ سے اپنی منزل کو پہنچے ہیں بلوچ قوم بھی اسی ہی جزبہ اورا سپرٹ سے بھی ایک نہ ایک دن اپنی ہدف تک ضرور پہنچے گا ۔