سه شنبه, اکتوبر 1, 2024
Homeخبریںملا منصور اختر فضائی حملے میں ہلاک ہوگئے ہیں :پینٹاگون

ملا منصور اختر فضائی حملے میں ہلاک ہوگئے ہیں :پینٹاگون

واشنگٹن ڈی سی((ہمگام نیوز)) امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا ہے۔ جس میں وہ ہلاک ہوگئے ہیں یا نہیں۔ پینٹاگون کے مطابق وہ ابھی معلومات کا جائزہ لے رہے ہیں لیکن ان کے خیال میں اس بات کا ’غالب امکان ہے کہ ملا منصور اس حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔‘ملا منصور گذشتہ سال ملا عمر کی ہلاکت کی خبر آنے کے بعد جولائی 2015 میں طالبان کے امیر بنے تھے۔ تاہم طالبان کے بعض دھڑوں نے انھیں اپنا امیر ماننے سے انکار کر دیا تھا۔پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کک نے ایک بیان میں کہا کہ ملا منصور ’طالبان کے سربراہ رہے ہیں اور وہ کابل اور افغانستان بھر میں تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی میں فعال طریقے سے حصہ لیتے رہے ہیں۔ وہ افغان شہریوں، سکیورٹی فورسز اور ہمارے عملے کے ارکان اور اتحادیوں کے لیے خطرے کا باعث بنے رہے۔‘ملا منصور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن اور مصالحت کی راہ میں رکاوٹ رہے، اور انھوں نے طالبان رہنماؤں کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں حصہ لینے سے روک رکھا ہے۔‘ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس حملے کی منظوری امریکی صدر براک اوباما نے دی تھی اور اس میں ایک اور جنگجو بھی ہلاک ہوا ہے۔ ملا منصور اور یہ دوسرا شخص احمد وال بلوچستان کے قریب (پاکستانی وقت کے مطابق سہ پہر تین بجے) ایک گاڑی میں جا رہے تھے کہ انھیں نشانہ بنایا گیا۔ تاہم اس حملے میں کوئی عام شہری ہلاک نہیں ہوا۔واضح رہے کہ احمد وال پاکستانی صوبے بلوچستان میں ہے اور نوشکی سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔پاکستان حکام کی جانب سے ابھی تک اس بارے میں کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ملا منصور اس حملے کا ہدف تھے جو امریکی سپیشل آپریشنز فورسز نے متعدد بلاہواباز طیاروں کی مدد سے چھ بجے صبح (دس بجے جی ایم ٹی) کیا۔‘تاہم دوسری جانب ایک طالبان کمانڈر، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ملا منصور کے قریبی ساتھی ہیں، خبررساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے ملا منصور کی ہلاکت کی خبر کی تردید کی ہے۔ انھوں نے کہا: ’ہم نے اس قسم کی بےبنیاد خبریں پہلے بھی سن رکھی ہیں، یہ پہلی بار نہیں ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میری اطلاع کے مطابق ملا منصور ہلاک نہیں ہوئے۔‘روئٹرز کے مطابق امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کو اس حملے کے بارے میں مطلع کر دیا گیا تھا، تاہم یہ نہیں بتایا کہ آیا یہ اطلاع حملے سے قبل دی گئی تھی۔ یا بعد میں۔عہدے دار نے کہا: ’منصور کی جانب سے لاحق خطرے کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کرنے کا یہ بہت خاص موقع تھا اور ہم نے اس پر عمل کیا۔‘افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ “اطلاعات ملی ہیں کہ ڈرون حملہ ہوا ہے جس میں کئی افغان طالبان ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ ڈرون حملہ ملا عمر کے آبائی علاقے اور بلوچستان سے متصل افغان صوبے زابل میں ہوا تھا تاہم ابھی یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ اس میں ہلاک ہونے والوں میں افغان طالبان کے سربراہ ملا منصور بھی شامل تھے۔یہ اطلاعات پچھلے تین ماہ سے موصول ہو رہی تھیں کہ ’’ملا منصور نظر نہیں آ رہے، وہ غائب ہو گئے ہیں اور ساتھیوں سے رابطے میں نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ قطر میں طالبان کے دفتر سے بھی یہ کہا گیا تھا کہ ان کے بہت مشکل سے ملا منصور سے رابطے ہوتے ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ جولائی 2015 میں طالبان کے سابق امیر ملا عمر کی ہلاکت کی خبریں آنے کے بعد ملا اختر منصور افغان طالبان کے نئے امیر مقرر ہوئے تھے۔طالبان کی جانب سے ملا اختر منصور کی تقرری کو تحریک کے بعض سنیئر رہنماؤں نے مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اُن کی تقرری شوریٰ کی مشاورت کے بغیر کی گئی ہے، جبکہ بعد میں ملا اختر منصور نے 30 منٹ پر مشتمل آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ جنگجوؤں کو متحد رہنا چاہیے کیونکہ ’ہمارے درمیان تفریق صرف دشمنوں کو ہی خوش کر سکتی ہے۔‘ ملا اختر منصور 60 کی دہائی میں افغانستان کے صوبے قندہار میں پیدا ہوئے تھے جس کی سرحد پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ملتی ہے ان کی عمر 50 سال کے لگ بھگ، جبکہ ان کا تعلق افغانستان کے اسحاق زئی قبیلے سے بتایا جاتا ہے وہ ’افغان جہاد‘ کے دوران خیبرپختونخوا کے شہر نوشہرہ میں جلوزئی مہاجر کیمپ میں دینی مدرسے کے طالب علم بھی رہے۔طالبان ذرائع کے مطابق ملا اختر منصور نے سابق سویت یونین کے خلاف ایک مختصر عرصے تک جہاد میں حصہ لیا اور اس وقت وہ افغان جہادی پارٹی حزب اسلامی افغانستان (یونس خالص) گروپ سے منسلک تھے۔وہ سابق افغان صدر ڈاکٹر نجیب کی سوویت یونین نواز حکومت کے خلاف بھی لڑتے رہے ہیں۔90 کی دہائی کے آخر میں جب افغانستان میں ملا عمر کی سربراہی میں تحریک طالبان کا ظہور ہوا تو ملا اختر محمد منصور نے بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔وہ طالبان دور حکومت کے دوران سول ایوی ایشن کے وزیر اور کچھ عرصہ تک قندہار ہوائی اڈے کے انچارج بھی رہے۔جب اکتوبر 2001 میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح ملا اختر منصور بھی کسی نامعلوم مقام پر روپوش ہو گئے اور ایک لمبے عرصے تک غائب رہے۔جب طالبان قیادت دوبارہ منظم ہوئی تو وہ بھی منظر عام پر آئے اور اس دوران وہ قندہار صوبے کے لیے طالبان کے ’شیڈو‘ گورنر کے عہدے پر بھی کام کرتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز