سه شنبه, اکتوبر 1, 2024
Homeخبریںتاجکستان: مذہبی جماعتوں پر پابندی کے لیے ریفرینڈم

تاجکستان: مذہبی جماعتوں پر پابندی کے لیے ریفرینڈم

دوشنبہ (ہمگام نیوز)تاجکستان خطے کے غریب ترین ممالک میں ہے اور اس کا بہت انحصار روس پر ہے۔ تاجکستان کے باشندوں کی اکثریت روس میں کام کرتے ہیں ۔اور ان کی آمدنی ملک کی مجموعی پیداوار کا نصف ہے۔تاجکستان میں خونی خانہ جنگی کا خاتمہ سنہ 1997 میں اسلام پسندوں کے ساتھ معاہدہ کے نتیجے میں ہوا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے انھیں مسلسل حکومت سے باہر رکھا جا رہا ہے۔روس اور تاجکستان کی جانب سے یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ افغانستان کی شورش تاجکستان کی سرحد میں داخل ہو سکتی ہے۔ تاجکستان میں روسی سفیر نے قندوز پر طالبان کے قبضے کے دوران برملا اس بات کا اظہار بھی کیا تھا۔ کہ داعش کے جنگجو تاجکستان سے ملحق افغانستان کے بارڈر سے روس میں داخل ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اب مسلمانوں کی کثیر آبادی والےملک تاجکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے رائے شماری کی جا رہی ہے۔میڈیا نمائندوں کے مطابق ریفرینڈم کا ایک مقصد صدر کے اختیارات میں مزید اضافہ بھی کرنا ہے۔تاجکستان کے صدر ایمومالی رحمان اس ملک پر سنہ 1992 سے حکومت کر رہے ہیں۔ انھوں نے اسلام پسند حزب اختلاف سے معاہدے کے ساتھ خود کو خانہ جنگی سے بچایا۔اور ازاں بعد حزب اختلاف کی اسلام پسند پارٹی اسلامی نشاۃ الثانیہ پارٹی پر پابندی لگانے کے لیے گذشتہ سال سے کوشش شروع کی ہے۔اتوار کو ہونے والے ریفرینڈم میں ووٹروں سے یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ کیا صدر کی مدت پر عائد پابندی کو بھی ختم کر دینا چاہیے۔ یعنی کوئی جتنی بار چاہے صدر رہ سکتا ہے۔اس میں صدارتی امیدوار کی عمر 35 سال سے 30 کرنے کی بھی تجویز ہے اور اس کے تحت ایمومالی رحمان کے بیٹے رستم کو صدر کے لیے انتخاب میں کھڑے ہونے کا موقع مل جائے گا کیونکہ رستم ابھی 29 سال کے ہیں اور آئندہ انتخابات سنہ 2020 میں ہونےوالے ہیں۔یہ نکات پارلیمانی بل میں شامل آئين میں ترامیم کے لیے شامل ہیں۔بیلٹ پیپر پر سوال کیا گيا ہے کہ کیا آپ اپنے ملک کے آئین میں ترامیم و اضافے کے حق میں ہیں؟

یہ بھی پڑھیں

فیچرز