کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ لاپتہ افراد کو قتل کرنے اور لوگوں کو نکل مکانی کرنے پر مجبور کرنے کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں بی ایچ آر او کارکنان اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے کارکنوں نے شرکت کی۔ شرکاء نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جن پر بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل روکنے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے مطالبے درج تھے۔ شرکاء نے پریس کلب کے سامنے نعرہ بازی کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بلوچستان سے نکل مکانی کرنے والے افراد کی آباد کاری اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے اپنا فوری کردار ادا کریں۔ مظاہرے کے شرکاء سے بی ایچ آر او کی چئیرپرسن بی بی گل بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال انتہائی مخدوش ہو چکی ہے۔ آئے روز کی کاروائیوں سے لوگوں میں خوف و حراس و عدم اطمینان کا احساس بڑھ چکا ہے۔ بی بی گل بلوچ نے کہا کہ بدقسمتی سے میڈیا نے بلوچستان کے سنگین مسئلے کے حوالے سے مکمل لاتعلقی اختیار کی ہوئی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے چھوٹا خطہ ہونے کے باوجود فورسز کے ہاتھوں سب سے زیادہ ہلاکتیں و اغواء بلوچستان میں ہورہے ہیں۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی مسلسل ہونے والی خلاف ورزیوں پر مقامی سول سوسائٹی کی تنظیموں و دیگر انسان دوست کارکنوں کی خاموشی مایوس کن ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ گزشتہ روز آواران کے علاقے مشکے میں فورسز نے زیرحراست پانچ بلوچوں کو سرعام گولی کا نشانہ بنا کرقتل کردیا۔ ان مقتولوں میں علی بخش اور الہی بخش عمر رسیدہ لوگ تھے جنہیں قتل سے دو روز قبل ا ن کے گھروں سے فورسز نے اغواء کیا تھا۔نیک جان ولد ہیبت اور عظیم خان ولد محمد خان مالدار تھے انہیں بھی قتل سے دور روز قبل ان کے گھروں سے فورسز نے گرفتار کیا تھا۔ جبکہ سرفراز ولد محمد حیات کو دو سال قبل فورسز نے اغواء کیا تھا جسے دیگر پانچ قیدیوں کے ساتھ قتل کرکے لاش مقامی انتظامیہ کے حوالے کی۔ فورسز آبادی کے اندر لوگوں کو قتل کرکے دیدہ دلیری کے ساتھ اور بار بار جھوٹے بیانات کے ذریعے اس طرح کے واقعات کو مقابلے میں ہونے والی ہلاکتیں قرار دے کر خود کو برالزمہ کردیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں فورسز لوگوں اغواء و تشدد کرنے اور حراستی قتل کرنے میں خود کو پاکستانی قوانین اور انسانی حقوق سے بالاتر سمجھ کر کاروائیاں کرتے ہیں جس کی کئی مثالیں بلوچستا ن میں موجود ہیں۔ فورسز مشکے آواران، کوہلو، قلات ، اسپلنجی، مستونگ، جوہان، دشت، گومازی ، راغے سمیت کئی علاقوں سے لوگوں کو گھر گھر جاکر علاقہ خالی کرنے کی دھمکی آمیز پیغام پہنچا رہے ہیں۔ معاشی حوالے سے کمزور مقامی بلوچ آبادی اپنے خاندان و بچوں کی حفاظت کے لئے بے سروسامانی کے عالم میں ان علاقوں سے نکلنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ جو لوگ اپنی مجبوریوں کے باعث اپنے گھروں کو نہیں چھوڑ سکے ہیں وہ آئے روز فورسز کی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔بی بی گل بلوچ نے کہا کہ بلوچستان سے ہزارو ں خاندان سالوں سے اپنے گھروں سے دور مجبوری کی عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے لیکن صوبائی اور وفاقی حکومت نکل مکانی کرنے والے خاندانوں کو تسلیم کرنے سے بھی انکار ی ہے، جس سے اس حوالے سے حکومتی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بی ایچ آر او کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ نے مقامی اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کی حراستی قتل، لوگوں کو گھروں سے اُٹھا کر لاپتہ رکھنے اور زبردستی علاقہ خالی کروانے جیسی کاروائیوں کی روک تھام اور نکل مکانی کرنے والے خاندانوں کی مدد کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں تاکہ بلوچستان کے لوگوں کی زندگیوں کو ان مشکلات سے بچایا جا سکے۔