دوحہ(ہمگام نیوز) سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے قطر کو پیش کیے گئے مطالبات پر عملدرآمد کی ڈیڈ لائن اتوار کے روز ختم ہو گئی جبکہ قطر کا کہنا ہے کہ وہ ان مطالبات کا باضابطہ جواب پیر کے روز دے گا۔ سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبات میں ٹی وی چینل الجزیرہ اور ترک فوجی اڈے کی بندش کے علاوہ ایران سے تعلقات میں کمی کا مطالبہ بھی شامل ہے اور ان پر عملدرآمد کے لیے قطر کو دس دن کا وقت دیا گیا تھا۔ قطر کے وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ان مطالبات کا باضابطہ جواب پیر کے روز کویت کے حوالے کرے گا۔ یاد رہے کہ قطر پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ اس وقت تک عرب ممالک سے بات چیت نہیں کرے گا جب تک کہ اس پر عائد معاشی اور سفری پابندیاں نہیں ہٹائی جاتیں۔ قطر نے ان مطالبات کو نامناسب اور ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ واضح رہے کہ کویت عرب ممالک اور قطر کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے اور چار عرب ممالک نے اپنے مطالبات بھی کویت کے ذریعے ہی قطر کو پہنچائے تھے۔ حال ہی میں چھ عرب و خلیجی ممالک نے قطر پر دہشت گرد گروپوں کی مدد کرنے اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کے الزامات لگاتے ہوئے اس سے تعلقات منقطع کیے ہیں جبکہ قطر ان الزامات سے انکار کرتا ہے۔ اس اقدام سے خطے میں ایسا سیاسی بحران پیدا ہو گیا ہے جس کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے مطالبات کی فہرست حاصل کی ہے جس کے مطابق قطر سے کہا گیا ہے کہ وہ عرب ممالک کی جانب سے پابندی کا شکار اخوان المسلمون سے تمام تعلقات توڑ لے۔ چاروں ممالک کے شہریوں کو بےدخل کر دے تاکہ بقول ان ممالک کے قطر کو ان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی سے روکا جا سکے۔ چاروں ممالک کو دہشت گردی کے الزامات میں مطلوب تمام افراد کو ان ممالک کے حوالے کرے۔ ایسے شدت پسند گروہوں کی مالی امداد بند کرے جنھیں امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے۔ سعودی عرب اور دیگر ممالک کی ان حکومت مخالف شخصیات کی فہرست فراہم کرے جنھیں قطر نے مالی مدد فراہم کی ہے۔ سیاسی، اقتصادی اور دیگر معاملات میں خلیج تعاون کونسل کے موقف سے ہم آہنگی پیدا کرے۔ الجزیرہ کے علاوہ اعرابی21 اور مڈل ایسٹ آئی جیسے خبر رساں اداروں کی مالی مدد بند کرے۔ مالی ہرجانہ ادا کرے اس سے قبل روس میں متحدہ عرب امارات کے سفیر عمر غباش قطر نے کہا تھا کہ سفارتی و تجارتی تعلقات منطقع کرنے والے عرب و خلیجی ممالک قطر پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اماراتی سفیر نے بتایا کہ نئی پابندیوں میں اس بات کا امکان بھی ہے کہ قطر مخالف عرب ممالک اپنے تجارتی ساتھیوں سے یہ کہیں کہ وہ قطر یا ان میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ قطر کو ان سفارتی اور معاشی پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا ہے اور ایسی صورتحال میں ترکی اور ایران وہ دو ممالک ہیں جو اسے خوراک اور دیگر اشیا بھجوا رہے ہیں۔ اس تنازع میں قطر کے خلاف کارروائی کرنے والے تمام عرب ممالک امریکہ کے انتہائی قریب ہیں تاہم امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن کا بھی یہی کہنا ہے کہ قطر سے پابندیاں ہٹانے کے لیے چار عرب ممالک کی جانب سے پیش کردہ مطالبات میں سے کچھ ایسے ہیں جنھیں پورا کرنا مشکل ہوگا۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ تجاویز اس مسئلے کے حل کے لیے بنیاد بھی فراہم کرتی ہیں۔