2010میں ہونے والے لندن کانفرنس میں جہاں دنیا کے سربراہان مملکت نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ افغانستان سے افواج کے انخلاء کا ایک ٹائم ٹیبل مرتب کیا جائے گااور دفاع کی ذمہ داری سلسلہ وار طریقے سے افغان فوج کے حوالے کیا جائے گا اور اسکے بعد جون 2011 میں بارک اوبامہ کی تقریر جس میں اس نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے ٹائم ٹیبل کا اعلان کیا تھا نے یہ واضح کردیا کہ 2014 کے بعد افغانستان کے حالت اس طرح نہیں رہیں گے جس طرح گذشتہ 13 سال سے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا کہ 2014 کے بعد افغانستان کے ساتھ امریکی تعلق کی نوعیت یکسر بدل جائیگی ۔ مقررہ وقت پر جب افغانستان سے امریکی اور ایساف افواج کا انخلاء شروع ہوگیا تو اسکے ساتھ ہی اس بحث کا بھی آغاز ہوگیا کہ افواج کے انخلاء کے اثرات علاقائی اور بین القوامی سطح پر کیا ہونگے ۔ اسکے ساتھ ہی خطے کے بدلتے ہوئے صورتحال کیلئے افغانستان کے ہمسائے ممالک نے بھی خود کو تیار کرنا شروع کردیا ۔ امریکی انخلاء سے پہلے افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار پر امن طریقے سے انتقال اقتدار کا عمل وقوع پذیر ہوا جس میں حامد کرزئی کی جگہ اشرف غنی نے افغانستان کے صدارت کا منصب سنبھالا اور دوسرے نمبر پر آنے والے عبداللہ عبداللہ کو ملک چیف ایگزیٹو بنایا گیا ۔ افغانستان کی نئی حکومت کو ایساف افواج کے انخلاء کے پیش نظر آتے ہی سیکیورٹی کی صورت میں ایک بہت بڑے چیلینج کا سامنا ہے ۔ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے اشرف غنی نے ایک معاہدے پر دستخط کردیئے جس کے تحت 2015 تک تقریباً 12000 ہزار فوجی جن میں سے اکثریت امریکی ہیں افغانستان میں رہیں گے جو افغان افواج کی تربیت اور معاونت کے ساتھ ساتھ طالبان کے خلاف مشترکہ کاروائیوں میں بھی حصہ لیں گے ۔ ایساف افواج کے انخلاء کے ساتھ ہی اس خطے پر بہت سے اثرات مرتب ہونگے جن میں سے فوری مسئلہ افغانستان کے سیکیورٹی کا ہے کیونکہ اس تیرہ سالہ جنگ کے باوجود ابھی تک طالبان بھر پور طاقت رکھتے ہیں اور وہ تواتر کے ساتھ مغربی افواج اور افغان فوج و پولیس پر حملے کررہا ہے ۔ منصوبے کے مطابق ان سے نمٹنے کیلئے نیٹو افغان فوج اور پولیس کی تربیت تو کررہا ہے لیکن یہ عمل ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے اور دوسری طرف پاکستان مبینہ طور پر افغان طالبان کی مکمل پشت پناہی کررہا ہے اور انہیں اسلحہ اور پیسے کے ساتھ ساتھ محفوظ پناہ گاہیں بھی فراہم کررہا ہے جس کی وجہ سے افغان فوج کو ان سے مقابلہ کرنے کیلئے اب تک کمزور سمجھا جاتا ہے ۔ دوسری طرف کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے نوے فیصد افیون کی پیداوار افغانستان میں ہوتا ہے ، منشیات کا یہ کاروبار افغانستان کے جی ڈی پی کا تین چوتھائی حصہ بنتا ہے ، امریکی افواج کے انخلاء کیساتھ ہی افیون کے پیداوار میں بے تحاشہ اضافہ ہوجائے گا اور بد قسمتی سے اسکا سب سے زیادہ فائدہ طالبان کو ہی ہوگا کیونکہ طالبان کے زیادہ تر فنڈز کا ذریعہ یہی کاروبار ہے ۔ اسکے ساتھ افغانستان کے معیشت کے بارے میں بھی بہت سے قیاس آرائیاں ہورہی ہیں ، اس وقت افغانستان کے بجٹ کا نوے فیصد بیرونی امداد سے آتا ہے ، جس کی وجہ سے افغانستان کی پوری معیشت بیرونی امداد پر منحصر ہوگئی ہے اس حوالے سے ورلڈ بینک نے اس خدشے کا اظہارکیا ہے کہ اگر ایساف افواج کے انخلاء کے بعد بیرونی امداد ملنا رک جاتا ہے تو افغانستان کا معیشت فوری طور پر بیٹھ جائے گا ۔افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد یہاں بہت سے سماجی اصلاحات متعارف کئے گئے تھے ، خواتین کو مردوں کے برابر لا کھڑا کیا گیا تھا ، اس وقت افغانستان میں چوبیس لاکھ افغان بچیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں جبکہ طالبان کے وقت انکی تعداد بمشکل پانچ ہزار تھی ، اسکے علاوہ نوکریوں اور سیاست میں بھی خواتین کی شرکت حوصلہ افزاء رہا لیکن اب امریکی انخلاء کے پیش نظر ان خدشات کا اظہار کیا جائے گا یہ اصلاحات ابتک کمزور حالت میں ہیں اگر طالبان دوبارہ اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہیں تو ان اصلاحات پر بہت ہی منفی اثرات پڑیں گے ۔لیکن ان سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد اس خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور طاقت کا ایک خلاء آجائے گا جسے پر کرنے کیلئے ابھی سے پاکستان ، ایران ، بھارت اور چین کمر بستہ ہوچکے ہیں اور صف بندیاں کررہے ہیں ۔ اس ضمن میں سب سے بڑا چیلینج پاکستان ہے جو 80 کے دہائی سے ہی طالبان کی افزائش کررہا ہے جسکی وجہ سے اسکے تعلقات افغان طالبان خاص طور پر حقانی نیٹورک سے بہت گہرے ہیں ، ماہرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہونے کے باوجود ڈبل گیم کرتا رہے ہیں ، ایک طرف وہ امریکا و دوسرے مغربی ممالک سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بناکر امدا د وصول کرتا رہا اور دوسری طرف وہ افغان طالبان کی معاشی اور عسکری مدد کرتا رہا ہے اور ہر مشکل حالت میں افغان طالبان خاص طور پر حقانی نیٹورک کو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں بھی مہیا کرتا رہا ہے حتیٰ کے یہ تک کہا جاتا ہے کہ افغان طالبان کا شوریٰ اس وقت پاکستان فوج کے حفاظت میں کوئٹہ کنٹونمنٹ میں ہے اور وہاں سے ہی طالبان کو لیڈ کررہے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں جب خطے میں طاقت کا تواز بدل رہا ہے وہاں پاکستان ایک طرف طالبان کو اپنا تزویراتی اثاثہ سمجھ کر اسکی پرورش و حفاظت کررہا ہے اور دوسری طرف پاکستان موجودہ افغان حکومت کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ اس وجہ سے تجزیہ کار اس بات کی پیشن گوئی کررہے ہیں کہ پاکستان ایک بار پھر افغان طالبان کو افغانستان میں متحرک کرکے موجودہ افغان حکومت کو غیر مستحکم کرکے وہاں اپنے ہمنوا طالبان کا اثر و نفوذ قائم کرنا چاہیں گے ، انہی عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں اضافے کو پاکستان کے ان ارادوں سے نتھی کیا جارہا ہے ۔ بلوچستان افغانستان کے سرحد پر واقع ہے اور بلوچ و افغان کئی صدیوں سے تاریخی تعلقات رکھتے ہیں ، افغانستان کے حالات کا بلوچستان پر ہمیشہ سے ہی بلا واستہ اثر پڑتا رہا ہے ۔ اب امریکی انخلاء کے بعد کے اثرات سے بھی بلوچستان محفوظ نہیں رہ سکتا۔اسی ضمن میں بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان ہمیشہ سے توسیع پسند عزائم رکھتا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے ہمسایہ اقوام کے امن کو تہہ و بالا کیا ہوا ہے اور بلوچستان پر قبضہ و افغانستان میں دہشت گردی بھی پاکستان کے انہی توسیع پسندانہ عزائم کے شاخسانے ہیں ، انہوں نے عالمی برادری سے اپیل بھی کی تھی انخلاء سے پہلے پاکستان کو پنجاب کے سرحدوں تک محدود کیا جائے اور بلوچ سمیت باقی سیکیولر مقبوضہ اقوام کی آزادی یقینی بنایا جائے ورنہ پاکستان اپنے تزویراتی گہرائی کے فلسفے پر عمل پیرا ہوکر طالبان کی پشت پناہی کرتے ہوئے افغانستان کا امن برباد کردے گا جس کے ہولناکیوں کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے ، انہوں نے امریکہ سے بھی مطالبہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو دی جانے والی امداد پر نظر ثانی کریں کیونکہ یہی امداد افغانستان میں دہشت گردوں کو پالنے اور بلوچوں کو محکوم رکھنے کیلئے استعمال کررہا ہے ۔