شنبه, اکتوبر 26, 2024
Homeخبریںسوشل میڈیاکی بےدریغ استعمال نوجوانوں کی مختلف قسم کے امراض کا سبب...

سوشل میڈیاکی بےدریغ استعمال نوجوانوں کی مختلف قسم کے امراض کا سبب بن رہا ہیں ،؛ماہرین طب کی رائے

کراچی (ہمگام رپورٹ ) کراچی میں گزشتہ دنوں مقامی ٹیچنگ ہسپتال میں دل کے امراض پرایک سیمنار ہوا جس میں ماہرین طب کا کہنا تھا کہ نوجوان اور بچے زیادہ تر سوشل میڈیا سے اپنے جواب کے حصول اور مختلف قسم کے گیمز میں رات گئے تک مصروف رہ کر جاگتے رہتے ہیں جس سے ان کی نیند پوری نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے انھیں مخرلف قسم قسم کی ذہنی دباؤاورتناؤکاسامنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے بعص اوقات انھیں بلڈ پریشر بھی ہونے لگتا ہے ایک پروفیسر نے بتایا کہ گزشتہ 5سال کے دوران دل کی بیماریوں میں 100گنا اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے کراچی میں ادارہ برائے امراض قلب میں مریضوں کو غیرمعمولی دباؤکا سامنا کرنا پڑرہا ہے، ہسپتالوں میں یومیہ 3ہزار کے قریب دل کے مریض رپورٹ ہو رہے ہیں جو کہ ایک خطرناک صورت ہے۔والدین سے درخواست کی جاتی ہے کہ کم عمر اور نوجوانوں کو کوامراض قلب و دوسری نفسیاتی امراض سے محفوظ رکھنے کیلیے سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے بچائیں کیونکہ رات گئے تک اس کے استعمال سے ان کے بچے ذہنی دباؤ، تناؤ کا شکار رہتے ہیں ، نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان بچوں کا بلڈ پریشر بھی بڑھ رہا ہے۔آج کل عوام کی اکثریت نے طرز زندگی تبدیل کرکے پرتعیش زندگی گزارنے کوترجیح دے رکھی ہے جبکہ نوجوان نسل اور کم عمرکے بچے،بچیاں سوشل میڈیا سے حد سے زیادہ منسلک ہوچکے ہیں اس دوران انھیں اپنی تعلیم،غذا ،صحت ، سماجی زندگی کی بھی پرواہ نہیں ہوتی۔ یہ رات کوکھانے کے بعد سوشل میڈیاسے رابطے کرنے کے لیے مسلسل الیکٹرانک سوشل میڈیا کا استعمال انھیں ذہنی دباؤ کا شکارکررہا ہے۔اور وہ اپنے آس پاس خاندان و سماجی زندگی سے انھیں بیگانہ بنا دینے کا موجب بن رہا یے۔جو کہ کسی بھی سماج اور فرد کیلئے ایک نقصان دہ عمل ہوتا ہے۔خصوصا سوشل میڈیا میں ایک اور چیز کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔کہ سوشل میڈیا میں ایسے منفی لوگ بھی ہے جو کسی سماج میں انسانو ں کی بہتری و خوشحالی سے انھیں زہنی تکلیف ہے۔ایسے لوگ دوسروں کو تکلیف دینے سے خود لزت محسوس کرتے ہے۔ایسے زہنی مریض و سماج دشمن عناصر سے خود کو اور دوسرے نوجوانوں کو دور رکھ کر بچانالازمی ہوتا ہے۔جو دوسرے انسانوں کو تکلیف دینے میں اپنی کامیابی محسوس کرتے ہے۔کسی بھی معاشرے میں ایسے شرپسند کو روکنا وہاں کے باشعور انسانوں کی اخلاقی زمہداری بنتی ہے کہ ان کی اصلیت دکھا کر ان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔تاکہ اس کے شر سے معاشرے کے دوسرے کارآمد باعزت انسانوں کو متاثر ہونے سے بچایا جاسکے۔کیونکہ ایسے تخریب کار شخص کسی بھی معاشرے کی سماجی اقدار کو اپنے پاوں تلے یکسر روندھ دیتا ہیں۔وہاں معاشرے میں کسی شریف النفس انسان جس کی اس سماج میں ایک مقام و عزت ہوتاہے۔ایسے تخریب کار انسان ان کی سیاسی،سماجی حیثت کو خراب کرنے کی ہرقسم کی کوشش و ہتکھنڈے کا استعمال کرتا رہتا ہے۔اس قسم کے لوگ اس معاشرے میں ایک ناسور کی مانند ہوتے ہیں۔جس کا علاج اور حل ضروری ہوتا ہے۔ورنہ ان کی خرابیاں وہاں کے پورے سماجی زندگی میں ایک بے چینی سی پیدا کرتے ہیں۔ایسے سماجی ناسور اور مجرم کا ایک بہترین علاج یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی اصل شناخت و کردار کو اس معاشرے میں سب کے سامنے واضع طور پر ظاہر کیا جائے۔تاکہ سب کو اس کے حرکات و ارداوں سے آگاہی ہوکر ہر شریف النفس انسان اپنا بچاو کرسکے۔اور ایک پرامن باہمی عزت و مقام کا ماحول قائم کرنے میں مدد مل سکے۔تب وہاں یہ ممکن ہوگا کہ وہاں کے سیاسی و سماجی کارکن اس سماج میں کسی مثبت تبدیلی کیلئے کوئی کام کرکے تبدیلی لاسکے ۔مہزب جمہوری ممالک میں کسی سیاسی شہری و کارکن سے ہر کسی کو اختلاف رائے کا قانونی حق ہوتا ہے۔لیکن سیاسی اختلاف کے نام پر کسی بھی انسان کی بلاوجہ کردار کشی اس ملک کے قانون کے تحت کرائم میں شمار ہوتاہے۔ایسے کرائمنل شخص کی علاج و روک تھام سیاسی تبدیلی سے پہلے لازمی ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز