ایران کے زیر تسلط بلوچستان کے بارے قومی پالیسی ؟؟
تحریر آرچن بلوچ
مشرق وسطی کی سیاست میں ایران آج طوفانی ہواؤں کے زد میں ہے، اندرونی طور پر ایک لاوا ابل رہا ہے، فارس کے زیر تسلط بلوچ ،احواز ،کرد اور دوسرے اقوام طوق غلامی کی زنجیر کو تھوڑنا چاہتے ہیں، فارس کی شیعہ ملا رجیم بہت کمزور ہوچکی ہے۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے ایران میں اندرونی تبدلی کو سپورٹ دینے کیلئے ملا رجیم کی عسکری طاقت کو ختم کرنے کیلئے جنگی تیاریاں بھی شروع کردی ہے ہیں۔۔ پیرس میں ایرانی اپوزیشن کے اجلاس میں ٹرمپ کے مشہور قانونی مشیر روڈی جولیانی نے کہا ملا رجیم کے دن گھنے جاچکے ہیں، بس اب ان کو جانا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ اگلے سال وہ اس کنوینشن کو وہاں ایران میں منعقد کرنا چاہتے ہیں۔
اس خطے کی سیاست یعنی جیوپالیٹکس میں طوفانی تبدیلیاں شروع ہوچکی ہیں، عالمی طاقتوں میں ایران کے حوالے دو واضع اسٹریٹجک فیصلے ہوچکے ہیں، سعودی عرب کی سربراہی میں عالم عرب اور اسرائیل کا موقف یہی ہے کہ ایران بالخصوص مشرق وسطی اور بالعموم عالمی امن کیلئے ایک سیکیورٹی رسک بن چکی ہے، اس کا وجود ختم ہونا چاہیے، جبکہ مغربی ممالک کا موقف ہے کہ ایران میں ملا رجیم کی تبدیلی کے عمل کی حوصلہ افزائی ہونا چاہیے۔ مغربی ممالک کا خیال ہے برقہ کے نیچھے جینز ہے، کالا برقہ ہٹ گیا تو معتدل و اعتدال پسند قوتیں آگے آئینگے۔ لیکن یہ معتدل اور اعتدال پسند قوتوں کا تعلق فارس سے ہوگا۔ وہ دوسرے اقوام بلوچ ،کرد، احوازی عرب وغیرہ کے قومی سوال کے وجود کو نہیں مانتے۔ لیکن ایران میں تبدیلی لانے کیلئے سعودی عرب اسرائیل اور امریکہ کیلئے بلوچ کرد اور احوازی عرب ناگزیر دوست کے طور پر ابھر چکے ہیں،
اس لیئے تمام آزادی پسند بلوچ قوتوں کیلئے اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی پالیساں اس خطے کی سیاسی حالات کے مطابق تشکیل دیں۔ موجودہ مجموعی قومی آزادی کی سیاست کو پالیسیز کے تناظر میں دیکھا جائے تو فری بلوچستان مومنٹ کی قیادت ایک واضع اور جامع قومی پروگرام پر عمل پیرا ہے جس میں تمام ایریاز اف پالیسیز کو جامع انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ فری بلوچستان مومنٹ کی قیادت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ بلوچستان ایک جامع وحدت ہے، موجودہ سرحدی حد وحدود یعنی پاکستان کے زیرتسلط بلوچستان کے تمام علاقے ایران کے زیرتسلط تمام علاقے اور افغانستان میں شامل تمام علاقے ایک ہی وحدت یعنی بلوچستان کے جزلاینفک ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ ان تمام لکیروں کو کیھنچنے والے غیر تھے اس میں بلوچ کی مرضی شامل نہیں تھی۔ جبکہ بی آر پی اور بی این ایم اس حوالے سے اپنی عملی سیاست میں جزوی طور پر پاکستان کی زیر تسلط بلوچستان تک محدود ہیں ! بلکہ ان بلوچ علاقوں کے بارے بھی خاموش ہیں جو پنجاب اور سندھ کے اندرشامل کیے گئے ہیں۔ انکی استدلال یہی ہے ہیں، بی آر پی کی قیادت کا موقف ہے کہ مغربی بلوچستان میں قومی آزادی کی کوئی تحریک نہیں چل رہی ہے، اس لیئے وہاں مداخلت کرنا مناسب نہیں اسی طرح بی این ایم کا موقف ہے کہ ہم کمزور ہیں وہاں تحریک نہیں چلا سکتے ۔ ان دونوں پارٹیوں کی موقف اس حوالے سے بابا مری نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ”جب تک جنگ نہیں کروگے، دعوا نہیں کروگے تو دشمن طاقت ور ہے اور رہے گا بھی“۔۔ شروع میں پاکستان کے زیر تسلط مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں کے پاس کونسی حربی طاقت تھی جسے بلوچ نوجوانوں نے ناقابل شکست مزاحمت میں بدل دیا؟ یعنی ابتداء جنگ اور دعوا سے شروع کیا گیا، اب اسے ختم کرنا پاکستان کی بس میں نہیں رہا۔ اندرونی کمزوریاں بہت ہیں، لیکن قابل حل ہیں ۔
اسی طرح بی آرپی کی یہ موقف کہ وہاں کوئی تحریک نہیں چل رہی بھی کمزور دلیل ہے. شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ نے اپنے ایک مقالے میں لکھا تھا کہ ”ڈاکٹر مالک اور عبدالحئی وغیرہ نے قومی آزادی کی تحریک بی این ایم کو دشمن کے گود میں ڈال کر تحریک کو تباہ کر دیا ہے، سب کچھ بجھ چکاہے لیکن وہ اس راکھ کے نیچھے بچے اس چنگھاری کو اس وقت تک دمتا رہے گا جب تک یہ ایک شعلہ ور آگ بن کر قابض قوت کو تباہ نہ کردے“۔ ایران کے زیر تسلط بلوچستان میں سیاسی آزادی پر پابندی نے اسے ایک آہنی دیوال کا ایک جیل خانہ بنا دیا ہے، مگر وہاں لاکھوں بلوچ اپنے دلوں میں آزادی کی تمنا رکھتے ہیں جنہیں ہم نے جاننے کی کوشش نہیں کی۔ وہاں اگر ایک بھی آزادی پسند بلوچ موجود ہے تو ہمیں اس کی قومی نظریہ اور فرض کے بنیاد پر اس کی حمایت کرنی چاہیے۔۔
بی آر پی اور بی این ایم کو چاہیے کہ وہ مشرق وسطی کی جیوپالیٹکس کو بلوچ مفادات کے تناظر میں دیکھیں اور اپنی پالیسوں میں بہتر تبدیلی لائیں، تاکہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں آسانیاں پیدا ہوں۔