کابل (ہمگام نیوز ویب ڈیسک ) حالیہ دنوں کے غزنی و کابل کے تباہ کن حملوں کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے انٹیلی جنس کے سربراہ ، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کے استعفے مسترد کردیے ہیں۔ان تینوں عہدیداروں نے طالبان مزاحمت کاروں اور دوسرے جنگجو گروپوں کے تباہ کن حملوں میں اضافے کے بعد ہفتے کے روز مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا۔
صدر اشرف غنی نے وزیر دفاع طارق شاہ بہرامی ، وزیر داخلہ ویس احمد برمک اور انٹیلیجنس چیف معصوم ستانکزئی سے کہا ہے کہ وہ اپنے فرائض بدستور انجام دیتے رہیں اور ملک کا دفاع مضبوط بنانے میں اپنا کردار اد کریں۔
کابل میں افغان صدارتی محل نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ صدر اشرف غنی نے ان کے استعفے منظور نہیں کیے اور انھیں سکیورٹی کی صورت حال کی بہتری کے لیے ضروری ہدایات جاری کر دی ہیں‘‘۔
افغان صدر کے قومی سلامتی کے طاقتور مشیر محمد حنیف اتمار ہفتے کے روز اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔اس سے ملک کی قومی اتحاد کی حکومت کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے۔
اس وقت صدر اشرف غنی کی حکومت کو جنگجو گروپوں کی مزاحمتی سرگرمیوں پر قابو پانے میں ناکامی پر افغان عوام کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا ہے۔طالبان نے افغان پولیس اور فوجیوں پر ملک بھر میں اپنے حملے تیز کررکھے ہیں جبکہ داعش کے جنگجو ؤں نے دارالحکومت کابل کو اپنے حملوں کا ہدف بنا رکھا ہے۔
افغان صدر نے سکیورٹی فورسز کے ذریعے طالبان کی مزاحمتی سرگرمیوں پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد انھیں تین ماہ کے لیے جنگ بندی کی مشروط پیش کش کی ہے۔ امریکا اور نیٹو نے ان کی اس تجویز کا خیرمقدم کیا ہے۔طالبان نے باضابطہ طور پر اس پیش کش کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
اشرف غنی کی حکومت نے جون میں عید الفطر کے موقع پر بھی قریباً ایک ہفتے کے لیے طالبان سے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا ۔اس کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ فریقین کے درمیان جنگزدہ ملک میں خونریزی روکنے کے لیے امن مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے لیکن طالبان نے اس مدت کے خاتمے کے بعد دوبارہ حملے شروع کردیے تھے۔جو کہ تاحال جاری ہے۔