چهارشنبه, اکتوبر 9, 2024
Homeاداریئےپاکستان کی گھمبیر معاشی صورتحال اور بلوچ قومی نجات : ہمگام اداریہ

پاکستان کی گھمبیر معاشی صورتحال اور بلوچ قومی نجات : ہمگام اداریہ

‎پاکستان کی معاشی گروتھ 2017 کی بہ نسبت موجودہ 2018 میں 5.95 فیصد بڑھوتری آئی ہے اس میں  روپیہ کی قدر 4 مرتبہ گرچکی ہے۔اور انٹرسٹ کی شرح 3 مرتبہ بڑھایا گیاہے ۔اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے روپیہ کی قدر میں 4 مرتبہ اس لیئے کم کرنے پر مجبور ہوا تاکہ ایکسپورٹ کو بڑھایا جاسکے۔ اور روپیہ کی قدر میں کمی آئی ایم ایف کی شرائط پر کیا گیا، آئی ایم ایف  کی ایک اور شرط یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ اپنے اخراجات میں کمی لائے،تاکہ اپنے ریزرو کو برقرار رکھ سکے، روپیہ کی قدر میں کمی کرنے کا ایک اور بڑا نقصان پاکستانی معیشت کو اس لیئے بھی اٹھانا پڑے گا کہ اسے درآمدات کیلئے زیادہ پیسہ خرچ کرنا پڑے گا ،جس سے  انفلیشن /مہنگائی مزید بڑھ جائیگا۔اور اس کے براہ راست اثرات عام عوام پر منفی انداز میں پڑے گا۔روپیہ کی قدر میں کمی کرنے سے مقامی پروڈکٹ کی قیمت مہنگا  ہوگا ،جس سے عوام کی قوت خرید میں  مشکلات پیدا ہوگا۔ایشیاء کے سینئرترین اکنامسٹ گیرت لیدرکا کہناہے کہ پاکستانی معیشت کی گروتھ اگلے 2 سال میں 5.8 سے گر کر3 فیصد تک پہنچ جائیگی۔
‎پاکستان جیسے انڈر ڈیلوپڈ کنٹری کیلئے 3 فیصد معاشی گراوٹ بہت ہی نقصان دہ ہوگا بہ نسبت ترقی یافتہ ملکوں کے برابر معیشت پر کچھ خاص اثر نہیں پڑے گا۔ پاکستان کی معیشت کیلئے اس وقت بہتر ہوتا کہ وہ موجودہ ترقی کی شرح 5.8 سے بڑھ کرکم از کم 6 فیصد تک ہوناچائیے تھا۔ کیونکہ دوسرے ملکوں کی بہ نسبت جیسے بنگلہ دیش انڈیا کی معیشت اس وقت 7فیصد کے حساب سے گروتھ کررہی ہے۔انڈیا کی معیشت کی گروتھ 7.7 فیصد پر تھا۔ اور موجودہ کوارٹر میں یعنی 3 مہینے بعد پہلے کوارٹر میں انڈیا کی موجودہ معاشی گروتھ 8.2 فیصد پر چل رہی ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والی معیشت میں سے  ہے۔ انڈیا کے بعد دوسرے نمبر پر چائناہے۔
‎پاکستان کی موجودہ جی ڈی پی 5.8 پر چل رہی ہے اور چائنا جودنیا میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے بڑی معیشت ہے۔ اس کی جی ڈی پی 6.7 فیصد ہے۔انڈیا کی جی ڈی پی 8.2 فیصد پر گروتھ کررہی ہے۔
‎پاکستان کی موجودہ معیشت تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے۔
‎سی پیک کی کنسٹرکشن کیلئے 2016 میں سب سے زیادہ درآمدات چائنا سے کیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو بہت بڑا نقصان پہنچ گیا ہے اور کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستانی معیشت میں انفلیشن/مہنگائی 7.1 فیصد پرکھڑی ہے جو کہ پچھلے چارسالوں میں سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے سنٹرل بینک نے اپنے فارن ریزرو کافی حد تک بیچ چکاہے تاکہ کرنسی کمزور ہو اور برآمدات کو بڑھایا جاسکے۔ پاکستان کے پاس موجودہ ریزرو9.5 سے نیچے پہنچ چکے ہیں جو کہ 3سالوں میں تقریبا سب سے نیچے ہیں۔پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرض لینا پڑے گی جن میں 2 آپشن زیر غور ہے نمبر1 چائنا انویسٹرز سے مزید قرضہ لیاجائے۔
‎نمبر2 آئی ایم ایف سے بیل آوٹ کیا جائے اسی لیئے پاکستان کی معیشت کو تباہی یا ڈیفالٹ سے بچانا ہے تو چائنیز سے زیادہ سود پر  مزید قرضہ لیاجائے۔
‎ملائیشیا کو قرضوں کیلئے سود کی مد میں 3.5 فیصد دینا پڑ رہا ہے،جبکہ پاکستان  5 فیصد دے رہا ہے۔اور اس کے علاوہ پاکستانی حکومت 12بلین ڈالر آئی ایم ایف کے پاس خواہشمند ہے،اور اگر پاکستانی حکومت نے بیل آوٹ کیلئے دیر کیا تو روپے کی قدر میں مزید گراوٹ آئیگی اور بہت سے ماہر معیشت اس بات پر متفق ہو کر یعقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کو ایسے حالات میں اپنی کرنسی روپیہ کی قدر کو مزید ڈی ویلیو کرنا پڑے گا،جبکہ یو ایس سیکرٹری آف اسٹیٹ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو اس صورت میں مدد نہ کرے جب وہ یہ ادھار چائنیز کیلئے دے۔ جو کہ سی پیک کی مد میں خرچ ہوئے ہیں۔اور پاکستان تو دنیا کے دو بڑے طاقتور ملکوں چائنا اور امریکہ کے درمیان بری طرح سے  پھنس چکی ہے۔پاکستان کی معیشت  میں جو کہ بہت زیادہ ادھار چائنا سے لیا گیا ہے،ان قرضوں کی ادائیگی کیلئے پاکستان یہ خواہش رکھتا ہے کہ آئی ایم ایف اسے بیل آوٹ کریگی۔یاد رہے آئی ایم ایف کی زیادہ تر فنڈنگ و اثر رسوخ مغربی ممالک کی جانب سے ہیں خصوصا امریکہ کا اثر ائی ایم ایف پر کچھ زیادہ ہی ہے۔اور یہ بات بھی زہن میں رکھنی چائیے کہ چائنا نے پاکستان کو قرضوں کی قابل ادائیگی قرضوں کی حد سے بھی زیادہ قرض دے چکی ہیں۔اسی لیئے وہ چائنا کے زیر اثر بھی بری طرح سے پھنس چکی ہے،اس قسم کے مشکل حالات میں ماہر معیشت گل بہار بلوچ نے اپنے تجزیاتی پیش بینی بیان کرتے ہوئے کہتے ہے کہ اس وقت قابض پاکستان کے سامنے اس کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں کہ وہ آئی ایم ایف سے سخت شرائط کی بنیاد پر بیھک مانگے ، یہ بات قارعین زہن میں رکھے پاکستان جیسے غیر فطری ریاست کی تباہ حال معیشت کو آئی ایم ایف نے 1980 سے لے کر آج تک 12 مرتبہ بیل آوٹ کرچکا یے۔جبکہ پاکستان کی مقامی معیشت کو چلانے کیلئے 12 بلین ڈالر کی کرنٹ اکاونٹ کو برقرار رکھنے کیلئے ہنگامی بنیادوں یہ اتنی کثیر رقم چائیے ۔جس میں 9 بلین ڈالرمقامی معیشت کوچلانے کیلئے جلد از جلد ضرورت ہے،جبکہ 3بلین ڈالر کرنٹ اکاونٹ کو برقرار رکھنے کیلئے درکار ہونگے۔پاکستان کی اسی خراب معیشت کی وجہ سے اس کی اسٹاک ایکسچینج پچھلے 6 مہینے میں 12 فیصد گرچکی ہیں۔پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ میں مسلسل گراوٹ کا رجحان ہے، گزشتہ جمعرات کو سٹیٹ بینک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق یہ اثاثے مزید 342 ملین ڈالرز کم ہو کر 9885 ملین ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں، حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 12 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج کی خواہشمند ہے۔اس وقت بلوچ سرزمین پر پاکستانی ریاست چائنا کے اشتراک سے نہ صرف میگا استعصالی منصوبہ سی پیک کے طویل منصوبے پر بلا تعطل کام جاری رکھا ہوا ہے ،بلکہ بلوچ وطن پر ایک اور استعصالی طویل مدتی منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ جیسے مزید منصوبے اس کے ساتھ ساتھ شامل کیئے ہوئے ہیں ،جو کہ 70 ممالک کو ایک ساتھ گوادر سے ملانے کا خطرناک منصوبہ ہے،اگر بلوچ دشمن ریاست پاکستان کے یہ استعصالی طویل مدتی منصوبے کامیاب ہوگئے،تو نہ صرف بلوچ قومی نجات مشکل میں پڑھ جائیگا بلکہ بلوچ قومی بقاء و قومی شناخت مکمل خطرے میں پڑ کر قومی فنا کے امکانات زیادہ پیدا ہوسکتے ہے۔لہزا اس وقت کم سطح کی بلوچ مسلح مزاحمتی جہد اور غیر منظم سیاسی جہد کو وقت کے ضروریات کے مطابق ترتیب دینا اشد ضروری ہے۔مزید یہ کہ تمام مسلح آزادی پسند مزاحمتی تنظیمیں گوادر و سی پیک روٹ سے متصل تمام شاہراہ پر جاری لوڈنگ ٹرک،اور وہ بڑے ٹرالر جو پورٹ سے کسی بھی قسم کے سامان کیلئے آمدورفت کرتے ہے،ان کو لازم نشانہ بنایا جائے، مزید یہ کہ سی پیک سے متصل تمام اہم شاہراہ اور مسلح مزاحمت کے نقطہ نظر سے ممکن سرکاری اہم تنصیبات ،سڑکوں، پل وغیرہ کو یکسر سبوتاژ کرکے کاروباری و تجارتی آمدروفت میں ہر وقت رکاوٹ پیدا کیا جائے ، اس کے ساتھ بلوچ گلزمین پر دشمن کی زرائع مواصلات ،کمیونیکشن انٹرنیٹ ،فائبر آپٹک کیبلز ،فوج کے اپنے مخصوص وائرلیس سسٹم کوسبوتاژ کرکے درہم برہم کیا جائے،تاکہ دشمن کی طرف سے بچھائی گئی وسیع استعصالی منصوبوں کے کام کرنے کو مکمل غیر فعال کیا جاسکے،اس وقت بلوچ قومی آزادی کیلئے بہت سے اچھے مواقع کے ساتھ ساتھ سب سے اہم موقع دشمن کی ناگفتہ حال خراب معیشت اور ناکام خارجہ پالیسی ہے،لہزا اس پس منظر میں بلوچ کے تمام استیک ہولڈرز کیلئے ضروری ہے کہ وہ وقت کی نزاکت کو بھانپ کر اسے سنبھلنے کا موقع نہ دے۔آج یہ مخصوص و معروضی وقت بلوچ قومی نجات کیلئے سب سے زیادہ قیمتی اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تاکہ بیرونی سرمایہ کار اس طرف اپنے سرمایہ کاری کے ارادے کو بدل دے ،جس سے یہ ممکن ہو بلوچ سرزمین سے متصل استعصالی منصوبے ناکام بناکر بلوچ سرزمین پر لاکھوں چائینیز،پنجابی اورمہاجروں کی آبادکاری کو روکا جاسکے ،اگر ایسا نہ ہوا تو بلوچ دشمن پنجابی و چائنیز کے منصوبے کامیاب ہونے کی صورت میں ریاست کی معیشت فعال ہوکر نہ صرف ایک بڑی عسکری قوت بلکہ ایک مضبوط معیشت بن سکتا ہے۔جس کے خلاف بلوچ سیاسی ،مزاحمتی قوت کو یکجاء کرنا کچھ آسان کام میں سے نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز