دوشنبه, دسمبر 23, 2024
Homeخبریںلندن و جرمنی میں بی آر پی کی جانب سے " ...

لندن و جرمنی میں بی آر پی کی جانب سے ” احتجاجی مظاہرے

(ہمگام نیوز )

بلوچ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی ترجمان شیر محمد بگٹی نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ بی آر پی کی جانب سے لندن و جرمنی میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے

بی آر پی ترجمان کا کہنا تھا کہ جرمنی کے شہر چمنٹز میں احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد بلوچستان میں گمشدگیوں میں اضافہ اور فوجی آپریشنوں کے تیزی کو عالمی دنیا کے سامنے اجاگر کرنا تھا

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان بھر سے ایک بار پھر جبری گمشدگیوں میں بہت ہی تیزی لائی گئی ہے خاص کر بلوچ نوجوانوں جو کہ کالج اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں کو اٹھا کر لاپتہ کیا جارہا ہے یا جو بھی لاپتہ افراد کے ساتھ ریاست کی نا انصافیوں پر بات کرتا ہے اسے اٹھا کر لاپتہ کیا جارہا ہے جس کی مثال حال میں جیئند بلوچ کو اپنے نو عمر بھائی اور والد کے ساتھااغوا کر کے لاپتہ کرنا ہے جبکہ اسی طرح کے ایک اور واقعے میں کوئٹہ سے کیچ جاتے ہوئے دولت خان نامی ایک طالب علم کو گورکوپ سے اغوا کیا گیا ہے۔

جرمنی میں مظاہرے کے دوران بی آر پی جرمنی چیپٹر کے صدر جواد بلوچ نے کہا ہے بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں اقلیتوں کے خلاف ریاستی جبر میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ بلوچ قوم ستر سالوں سے پاکستانی مسلح افواج کے جبر کا شکار ہیں اور غیر قانونی اقدامات کے تحت پاکستانی افواج نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں مزید تیزی لائی ہے جہاں اب تک ہزاروں نوجوانوں کو پابند سلال رکھا گیا ہے انھونے مزید کہا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف بلوچ ریپبلکن پارٹی ہر فورم پر آواز بلند کریگی

شیر محمد بگٹی نے مزید کہا ہے لندن میں برطانیوی وزیر عظیم کے دفتر کے سامنے بھی ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس کا مقصد بھی بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنا تھا اور ہم تمام لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ ہے جبکہ بی آر پی بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے دنیا میں ہر فورم پر آواز اٹھائے گی۔

جبکہ لندن مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بی آر پی کے مرکزی رہنما منصور بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال سنگین تر ہوتی جارہی ہے اور ہماری ماں بہنیں کوئٹہ پریس کلب میں اس سخت سردی کے موسم میں سڑکوں پر دربدر ہیں جن کے بچے کئی سالوں سے لاپتہ ہیں اور خاندان کو کوئی معلوم نہیں ہے کہ ان کے پیاروں کو کس جرم کے تحت اٹھایا گیا ہے

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں کوئی قانون لاگوں نہیں ہوتا بلکہ وہاں پر جنگل کا قانون ہے ریاستی ادارے جب چائیے کسی بھی بے گناہ انسان کو اٹھا کر لاپتہ کردیتے ہیں جہاں کبھی کسی سے تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور پھر اس کی لاش پھنک دی جاتی ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو لاپتہ کردیا گیا ہےجن کے لواحقین زہنی ازیت کا شکار ہیں اور روز مرنے کے مترادف کی زندگی گزار رہے ہیں

بیان میں انسانی حقوق کے اداروں اور اقوام متحدہ سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے سنگین مسلئے پر مداخلت کرتے ہوئے عملی اقدامات کریں تاکہ جبری طور پر گمشدہ بلوچ اسیران واپس اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز