پنجشنبه, اکتوبر 10, 2024
Homeخبریںپاکستان میں پرائیویٹ وار کنٹریکٹر کی تاریک تاریخ: امریکی رپورٹ

پاکستان میں پرائیویٹ وار کنٹریکٹر کی تاریک تاریخ: امریکی رپورٹ

واشنگٹن (ہمگام نیوز ڈیسک ) امریکہ کی جانب سے 2010 میں ایک اعلان کیا گیا تھا کہ ’کسی بھی کنٹریکٹر کو 30 روز میں پاکستان اور افغانستان میں کسی بھی جگہ پر پہنچنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنا ہے۔ امریکہ کے سب سے پرانے جریدے دی نیشن نے اس اعلان کو 2010 میں نمایاں کیا تھا جس میں پرائیویٹ وار کنٹریٹر کی درخواستوں کا ذکر شامل ہے جو امریکہ کے فوجی ساز و سامان کو پاکستان کے حساس علاقوں سے گزار کر افغانستان پہنچانے سے متعلق تھی۔ ان کنٹریکٹر کے ذمے جو کام تھے ان میں پاکستان اور افغانستان میں امریکی ساز و سامان کو لاحق خطرات سے متعلق انٹیلی جنس رپورٹ امریکی حکام کو فراہم کرنا تھا۔ایک دلچسپ نوٹس بھی اس کا حصہ تھا جسے پاکستانی میڈیا نے مکمل طور پر نظر انداز کیا تھا جو کام کی شدت کو اس طرح وضع کرتا تھا کہ ’اوسطاً 5 ہزار درآمد شپمنٹ پاکستان گراؤنڈ لائن آف کمیونیکیشن سے ماہانہ افغانستان جائیں گی، لیکن ان میں 5 سو برآمد شپمنٹ بھی ہوں گی‘۔
ان کنٹریکٹ کے شرائط و ضوابط سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی اہلکار ان آپریشنز میں براہِ راست شامل تھے، تاہم امریکیوں نے اپنے امور انجام دینے کے لیے بڑی تعداد میں پاکستانیوں اور افغانیوں کی خدمات حاصل کیں۔
امریکی جریدے دی نیشن کے اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ کے محکمہ دفاع میں رجسٹرڈ ہونے والی کمپنیوں میں افغانستان کی کمپنی کا تعلق سی آئی اے کے سابق افسر سے ہے جبکہ اسے افغانستان کے سابق وزیرِ دفاع کا بیٹا چلاتا ہے جبکہ پاکستانی فرم کے تانے بانے بلیک واٹر سے ملتے ہیں جو پاکستان میں امریکہ کی ایک نجی سیکیورٹی کمپنی تھی۔ اگر باریک بینی سے تمام مسائل پر غور و فکر کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی یے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تلخیوں کی وجہ صرف افغانستان نہیں ۔ بلکہ امریکہ کو یہ خدشہ ہے کہ اس کی گرفت پاکستان پر رفتہ رفتہ کم ہوتی جارہی ہے۔
ساتھ ہی بجٹ دستاویز میں چین اور روس کو امریکہ کی قومی سلامتی اور خوشحالی کے لیے مرکزی خطرہ قرار دیا گیا اور اس سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پاکستان کی صورتحال پر اپریل 2012 میں ایک صحافی انٹونی لیووینسٹین نے ایک آسٹریلوی اشاعت میں لکھا تھا کہ ’پاکستان میں امریکہ کی نجی سیکیورٹی ریاست میں ایک ریاست ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ایسے 62 ریٹائرڈ ملٹری افسران یہ کمپنیاں چلا رہے ہیں جنہیں کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور بعد میں رہا بھی کردیا گیا۔
ان کا اپنی اشاعت میں یہ بھی کہنا تھا کہ 2012 میں جن کمپنیوں کے ناموں کی فہرست سامنے آئی ہے ان میں مشہورِ زمانہ جی 4 ایس ہے جو پاکستان میں جی 4 ایس ویکن ہٹ پاکستان کے نام سے چل رہی ہے۔
صحافی کے مطابق جی 4 ایس ایک برطانوی سیکیورٹی کمپنی ہے جس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سینکڑوں الزامات ہیں۔ایک نیوز ویب سائٹ فارن پالیسی کی جانب سے جنوری 2010 میں جاری ہونے والی رپورٹ میں ان نجی سیکیورٹی کمپنیوں کے کام کرنے کے دور کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
اس میں بتایا گیا کہ 2010 میں اقوام متحدہ کے ایک اہم سیکیورٹی حکام گریگوری اسٹر جو امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سیکیورٹی کے سابق سربراہ بھی ہیں نے پاکستان میں امریکہ کی ان نجی سیکیورٹی کمپنیوں کو بڑھانے کی وکالت کی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جو کمپنیاں پاکستان میں سب سے زیادہ متحرک ہیں ان میں بلیک واٹر یا زی، ٹرپل کینوپی، ڈائن کورپس اور ایجس شامل ہیں، جنہوں نے اب مقامی شراکت داروں کی خدمات بھی حاصل کرلیں۔
امریکی میڈیا میں تو کنٹریکٹرز کے معاملات کو نمایاں کیا جاتا رہا، لیکن دنیا کی توجہ اس جانب تب مبذول ہوئی جب براؤن یونیورسٹی کے کاسٹس آف وار پروجیکٹ کی جانب سے ایک رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ گزشتہ 17 سال کے دوران پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مارے جانے والے 65 ہزار پاکستانیوں میں 90 امریکی بھی شامل تھے۔مذکورہ ویب سائٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے ان سیکیورٹی کمپنیوں میں اضافہ کرنے کے دباؤ میں 2009 میں اقوام متحدہ کی رہائش گاہ پر طالبان کے حملے کے بعد تیزی آگئی تھی جس میں اقوام متحدہ کے 5 ملازمین ہلاک ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز