بلوچستان کے مختلف علاقوں خاص طور پر مکران میں گذشتہ ایک سال کے دوران پاکستانی فوج کی بلوچ آبادیوں پر آپریشنوں کے شدت میں غیر معمولی تیزی دیکھنے کو مل رہی اور روز افزوں آپریشنوں کے اس شدت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ صرف اسی ہفتے کے دوران ایک واقعے میں پاکستان فوج نے گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے بلوچستان کے ساحلی علاقے پسنی ،کلانچ ، پیدارک اور گرد نواح میں ایک بڑے پیمانے کا آپریشن کرتے ہوئے تقریباً دس بلوچوں کو جبری طور پر اغواء اور دو بلوچوں کو شہید کردیا ، اسی طرح قابض ریاستی فورسز نے مشکے کے شہری علاقوں ،گجر، قلات چیر، کچ،میوار اور کلّر سمیت مختلف علاقوں کا گھیراؤ کرکے نہتے عوام و خواتین بچوں پر شدید تشدد کرکے گھروں، کھیتوں، دکانوں سے 300سے زائد بلوچ بزرگوں و نوجوانوں کو جبری طور پر اغواء کرکے مشکے میں واقع اپنے کیمپ میں منتقل کردیا،اس دوران دکانوں وں ا ور گھروں سے قیمتی اشیاء بھی لوٹ لی گئیں، اسی طرح ایک اور بڑے پیمانے کے آپریشن میں قابض پاکستان کے فورسز نے فوجی دستوں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے بلوچستان کے علاقے بیسمہ کو گھیر کر اندھا دھند بمباری اور فائرنگ شروع کردی ، جس کی وجہ سے 9 بلوچ شہید ہوگئے جن میں بزرگ اور بچے بھی شامل ہیں بعد ازاں بیسمہ سے درجنوں بلوچ اغواء کرکے انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ۔ اسکے علاوہ بلوچستان کے علاقوں جھاو ، کھوڑو اور شادی کور میں چھوٹے پیمانے کے فوجی کاروائیاں کرتے ہوئے ان مذکورہ علاقوں میں اپنے نئے فوجی کیمپ تعمیر کیئے گئے ۔ یہ اعداد و شمار محض ایک ہفتے کی کاروائیاں ہیں یہ اب بلوچستان میں روز کا معمول بن چکا ہے کہ کسی ناکسی بلوچ سول آبادی پر چھڑائی کرکے کئی بلوچوں کو شہید اور نوجوانوں کو اغواء کیا جاتا ہے اور بعد ازاں ان مغوی بلوچوں کی یا تو مسخ شدہ لاشیں بلوچستان سمیت کراچی کے مختلف علاقوں سے منظر عام پر آتی ہیں اور باقی سالوں گذرنے کے باوجود کبھی منظر عام پر نہیں آتے جن کے بارے میں شبہ ظاھر کیا جاتا ہے کہ انہیں شہید کرکے اجتماعی قبروں میں دفنادیا جاتا ہے ، اسی وجہ سے لاپتہ بلوچوں کی تعداد میں روز بروز ہوشربا اضافہ ہوتا جارہا ہے ، غیر سرکاری ادارے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے اعداد و شمار کے مطابق اب ان لاپتہ بلوچوں کی تعداد 18000 سے تجاوز کرچکی ہے ۔ یوں تو بلوچستان میں ان فوجی آپریشنوں کا تسلسل قبضے کے پہلے دن سے جاری ہے اور خاص طور پر گذشتہ ایک دہائی سے یہ مستقل بنیادوں پر جاری رہی ہے لیکن گذشتہ ایک سال سے اسکی شدت میں غیر معمولی تیزی کے بارے میں بلوچ مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان چین کی مدد سے گوادر کو آپریشنل کرنا چاہتا ہے اور وہاں ایک اکنامک کوریڈور بنانا چاہتا ہے جو گوادر تا کاشغر روڈ کے توسط سے چین کو گوادر سے جوڑ دے گا ، بعد میں یہاں چینی سرمایہ کاری سے فری ٹریڈ زون تعمیر کرکے آبادی کا بہاو گوادر کی طرف موڑا جائے گا جو شدید مردم نگارانہ تبدیلیاں لاکر بلوچوں کو ان علاقوں میں اقلیت میں بدل دے گی، لیکن اس منصوبے کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ بلوچ قومی تحریک آزادی ہے ، بلوچ لبریشن آرمی سمیت باقی مسلح تنظیم مختلف اوقات میں چینی انجنیروں پر حملے کرچکے ہے ، مسلح تنظیموں کے علاوہ عام بلوچوں کی تحریک آزادی کی حمایت بھی پاکستان اور چین کے ان معاہدات کے سامنے ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں ، اب اسی ضمن میں پاکستان چین کے تعاون اور اشتراک سے تحریک آزادی کو کمزور کرنے کیلئے پے در پے آپریشن کررہی ہے تاکہ بلوچ مزاحمت کاروں کو کمزور کرکے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جائے اور دوسری طرف بلوچ آبادیوں پر حملوں کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں سے بلوچ عوام کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا جائے ، لیکن بلوچ لبریشن آرمی سمیت باقی مسلح تنظیم اپنے کم وسائل کے باوجود ان منصوبوں کے سامنے ایک بہت بڑی رکاوٹ کی صورت میں موجود ہیں ۔ حال ہی میں پاکستان اور چین نے اپنے ان معاہدات کو حتمی شکل دی ہے ، پاکستان نے گوادر بلوچستان کے 2281 ایکڑ اراضی 40 سالہ لیز کی صورت میں چین کے حوالے کردیا ہے جہاں چینی کمپنی ایک فری ٹریڈ زون تعمیر کرے گی ، 20 سال تک یہ ٹیکس فری زون کی حیثیت سے کام کرے گی ۔ یہ منصوبہ گوادر پورٹ کے مغرب میں واقع ہوگا ، مبصرین کا کہنا ہے کہ چین گوادر کو صرف اپنے معاشی مفادات کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ امریکہ اور بھارت پر خطے میں برتری حاصل کرنے کیلئے یہاں ایک نیول بیس بھی تعمیر کرے گی ۔ مختص شدہ 2281 ایکڑ زمین میں سے 654 ایکڑ نیول بیس اور کوسٹ گارڈ کیلئے مقرر کیئے گئے ہیں۔ اسی مد میں ایک اور منصوبے کا بھی آغاز بھی کیا جارہا ہے جس کے تحت گوادر پورٹ کو چین اور باقی علاقوں سے ملانے کیلئے ایک ریلوے ٹریک تعمیر کی جائے گی ، یہ ریلوے ٹریک بلوچستان کے علاقوں گوادر ، تربت ، ہوشاب ، بیسمہ اور مستونگ سے گذرے گی ۔ اب صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو پاکستانی فوج کے آپریشنوں کی شدت انہی علاقوں میں روز بروز بڑھ رہی ہے ۔ چین اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے نا صرف انتہائی بھاری سرمایہ کاری کررہی ہے بلکہ بلوچ مزاحمتی تنظیموں کو کچلنے کی خاطر پاکستان فوج کو خطیر فوجی امداد بھی مہیا کررہا ہے ، اگر چین اپنے اس معاہدے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس سے نا صرف بلوچ بقا کو خطرات لاحق ہوجائیں گے بلکہ خطے میں طاقت کا توازن بری طرح متاثر ہوجائے گا اور چین کو بھارت اور امریکہ پر عسکری برتری حاصل ہوجائے گا اسکے ساتھ ساتھ آبنائے ہرمز کے بالکل سامنے گوادر پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد چین اس پوزیشن میں آجائے گا کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے تیل کے رسد گاہ پر کسی بھی وقت کنٹرول حاصل کرلے ۔ تاہم بلوچ مزاحمتی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی سمیت باقی آزادی پسند مسلح و سیاسی تنظیموں نے چین کو بارہا یہ تنبیہہ کی ہوئی ہے کہ وہ کسی بھی صورت پاکستان اور چین کے اس معاہدے کو تسلیم نہیں کرتے اور اسے روکنے کیلئے شدید مزاحمت کا عندیہ بھی دیا ہے ۔