کو ئٹہ(ہمگام نیوز) لاپتہ بلوچ ااسیران و شہد ا کے لواحقین کی بھوک ہڑتالی کیمپ کو 1902دن ہو گئے۔ااطہار یکجہتی کرنے والوں میں سول سوسائٹی اور مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں نے لاپتہ و شہدا کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کی اور انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جنگ و جدل روز بہ روز گہری ہو رہی ہے۔ یہ جنگ جو بلوچستان پر بزور طاقت نو آبادیاتی تسلط کے ذریعے کے بلوچ قوم پر مسلط کی گئی۔ وفد سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ ،جنرل سیکرٹری فرزانہ مجید بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی اداروں اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو مزید سفاک بنا دیا ہے۔جس کا وحشیانی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ جنگی قوانین و اصولوں کو پامال کرتے ہوئے بلوچ نسل کش فوجی کاروائیوں میں لائی جانے والی شدت کی صورت کیا جارہا ہے۔ ان فوجی کاروائیوں میں عام بلوچ آبادیوں میں بڑے پیمانے پر بمباری گھروں کو نظر آتش کرنا، خواتین، بچوں و بوڑھوں سمیت نہتے بلوچوں کو وحشیانی تشددکا نشانہ بنانا اور انہین اُٹھا کر غائب کرنا، پھر اُن کی تشد دزدہ مسخ لاشوں کو لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے ناقابل شناخت قرار دیکر دفنا دیتے ہیں، یا پھر ویرانوں میں پھینکنا اور اپنے زرخرید دلالوں کے زریعے بلوچ طلباء، نوجوانوں ، سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور دانشوروں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی ٹارگٹ کلنگ کرنا اور دیگر بلوچ نسل کشی کی اقدام شامل ہیں۔ پاکستانی فورسز کی اُن سفاکانہ کاروائیوں کو پوری دنیا جنگی جرائم تسلیم کرتے ہوئے اُسکی فوری روک تھام پر زور دے رہی ہے۔ اُس فوجی کاروائیوں میں مکران کو شدید نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہی کیف اگرچہ کوہستان مری و ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان بھر کی ہے۔ تا ہم گزشتہ کچھ عرصے سے مکران میں بلا توقف پے در پے فوجی کاروائیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ جس میں فضائی بمباری، زمینی کاروائیوں دونوں ذرائع استعمال کیے جارہے ہیں۔ آواران، تربت، گوادر، پنجگور، مند، تمپ، وغیرہ میں مختلف بلوچ آبادیوں پر بمباری کرکے انہیں تہس نہس کردیا گیا ہے۔جس میں خواتین و بچوں کی بڑی تعداد میں نشانہ بنی ہے۔ اُن کاروائیوں میں اب تک سینکروں شہید و زخمی اور گرفتار و لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔ اُن تمام بلوچ نسل کش کاروائیوں میں جو جنگی جرائم کے زُمرے میں آتی ہیں۔پھر پاکستانی جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعوے دار تمام سیاسی مذہبی جماعتیں لبرل دانشور حلقے اور میڈیا مکمل طور پر خاموش ہیں، پاکستانی الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کو دیکھ تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے بلوچستان میں امن، ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہے۔ اور دودھ و شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ جبکہ بلوچ قوم کا اُس کی اپنی سرزمین پر بہایا جانے والاخون ریاستی
جارحیت سے لگائی گئی آگ اُسے کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ جبکہ نام نہاد جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعویدار قوتیں بڑے پیمانے پر فوجی کاروائیوں سے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔