واشنگٹن ( ہمگام نیوز ڈیسک )امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن کو آٹھ ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ کشیدگی کے باعث خلیج میں امریکہ کے اتحادی سعودی عرب کو خطرہ لاحق ہے جس کے پیشِ نظر یہ معاہدہ ضروری ہے۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی صدر اس ضمن میں کانگریس کی منظوری کو بالائے طاق رکھ کر وفاقی قانون کی اس شق کا سہارا لے رہے ہیں جس کا استعمال ماضی میں کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ کشیدگی کو ‘قومی ایمرجنسی’ قرار دیتے ہوئے اپنے اس اقدام کا دفاع کیا ہے۔مروجہ طریقہ کار کے مطابق ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق بڑے مجوزہ معاہدوں کو کانگریس میں زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔کانگریس نے چند ماہ قبل حملے میں استعمال ہونے والے اسلحے کی سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔امریکی کانگریس نے یہ اقدام سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے یمن میں فضائی بمباری کے باعث متعدد شہریوں کی ہلاکت، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور صحافی جمال خشوگی کی ہلاکت کے تناظر میں کیا تھا۔بعض ڈیمو کریٹک ارکان کے مطابق صدر ٹرمپ سعودی عرب کو بموں سمیت دیگر ہتھیاروں کی فروخت کے معاملے پر اسلحے کی فروخت کے قانون میں موجود سقم کا سہارا لے رہے ہیں۔ جس میں قومی ایمرجنسی کا نفاذ بھی شامل ہے۔سینیٹر کرس مرفی کے مطابق صدر ٹرمپ محض اس لیے ایمرجنسی کا سہارا لے رہے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ کانگریس ان سے اتفاق نہیں کرے گی۔ ان کے بقول یہ کوئی ایمرجنسی نہیں ہے کہ ہم سعودی عرب کو یہ اجازت دیں کہ وہ یمن میں بم گرائے اور ایک نیا انسانی المیہ جنم لے۔ کانگریس میں بہت سے ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن ارکان اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کانگریس نے اس معاملے میں مزاحمت نہ کی تو مستقبل میں بھی امریکی صدور اس روایت کو استعمال کریں گے۔امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ خلیج میں امریکہ کے اتحادیوں کو ایران کے خلاف کم سے کم دفاعی صلاحیت برقرار رکھنے کے لیے اسلحے کی فروخت ضروری ہے۔ ان کے بقول ایران کی سرگرمیاں نہ صرف خطے کے ممالک بلکہ امریکی مفادات کے لیے بھی خطرہ ہیں۔امریکی صدر کے اس فیصلے پر ارکانِ کانگریس کی جانب سے بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض ارکان کا کہنا ہے کہ امریکہ کا یہ اقدام ‘آمر حکومت’ کی حمایت کے مترادف ہے۔