کابل (ہمگام نیوزڈیسک) نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی اپنے حکومت کے آخری دنوں میں آج پاکستان کے دورے پر روانہ ہوئے ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے اعلامیے کے مطابق اس دورے کے دوران باہمی دلچسپی کے اُمور سمیت سیاسی، تجارتی، اقتصادی، سکیورٹی اور دونوں ممالک کی عوام کے درمیان رابطے بڑھانے پر بات چیت ہو گی۔
تاہم بعض تجزیہ کاروں کے مطابق افغان صدر کے دورے میں افغان مہاجرین، باڈر منیجمنٹ، افغان امن عمل اور دونوں ملکوں کے ایک دوسرے پر اپنے اپنے ریاست دشمن عناصر کو پناہ دینے کے الزامات پر بھی بات چیت ہو گی۔ ان کے مطابق افغان صدر کی ایک اور کوشش یہ بھی ہو گی کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جائیں۔افغان صدر اشرف غنی ایک ایسے وقت میں پاکستان کے دورے پر جا رہے ہیں جب طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات جاری ہیں اور اسی سال ستمبر میں افغان صدارتی انتخابات بھی ہو رہے ہیں۔ اگرچہ صدر اشرف غنی کی حکومت کچھ مہینوں میں ختم ہورہی ہے، لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق غالب امکان یہی ہے کہ وہ ستمبر کے انتخابات میں دوبارہ صدر منتخب ہو جائیں گے۔یاد رہے گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے دوران پاکستان کی طرف سے کئی بار کوشش کی گئی کہ افغان صدر پاکستان کے دورے پر آئیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث ڈاکٹر اشرف غنی نے یہ دعوت قبول نہیں کی۔واضع رہے افغان صدر کا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور افغان صدر پاکستان کا یہ دورہ بڑے نازک حالات میں کررہے ہیں۔کابل میں پاکستان کے حوالے سے جو تحفظات یا شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں، افغان صدر نے اُن کو نظرانداز کرتے ہوئے بڑے نازک وقت میں پاکستان کے دورے کا فیصلہ کیا ہے.افغانستان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی قیادت نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں میں رہ رہی ہے بلکہ اُن کے تربیتی مراکز بھی پاکستان میں موجود ہیں اور آج بھی بیشتر افغان حکومتی عہدیدار وہاں دہشت گردی کے ہر واقعے کا ذمہ دار برائے راست پاکستان کو ٹھہراتے ہیں۔ جبکہ افغانستان کی طرف سے انھی الزامات بعد دوسرے بے شمار ناقابل تردید ثبوتوں کے علاوہ افغان طالبان کے لیڈر ملا منصور جنھیں پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان میں امریکی ڈرون نے نشانہ بنایا تھا۔ اور پاکستان بھی بڑے بھونڈے انداز میں محکوم بلوچ ، پشتون اور سندھی اقوام کی ہر سطح پر استعصال کرکے ریاستی قوت سے مظالم ڈھاکر افغان حکومت پر بھی اس قسم کے جوابی الزامات لگا چکے ہیں ۔اسی طرح گذشتہ سال پاکستانی فوج کے مظالم کے ردعمل میں بننے والی تنظیم ‘پشتون تحفظ موومنٹ’ کو بھی افغان حکومت اور انڈیا کے کمک کے الزامات لگا چکا ہیں۔ اور اسی طرح ماضی قریب میں جب افغان صدر اشرف غنی نے پشتون تحفظ موومنٹ کے حق میں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کیے تو پاکستان نے اس پر بھی شدید احتجاج کیا اور اس کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔جبکہ پاکستان کا الزام ہے کہ ‘تحریک طالبان پاکستان’ افگان حکومت سپورٹ کررہی ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان کے فوجی جارحیت سے تنگ آکر ہزاروں بلوچ خاندان پاکستانی فوج کے مظالم سے تنگ آکر اپنے وطن کو چھوڑ کر بین الاقوامی قانون کے عین مطابق اپنی جان و مال عزت بچانے کی خاطر اپنے ہمسایہ ملک افغانستان ہجرت کرکے بلوچ مہاجرین پر دہشتگردی کے غلط الزامات لگا چکا ہیں۔کہ افغان ان سرگرم بلوچ آزادی پسندوں کو نہ صرف پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کر رہے ہیں بلکہ انڈیا کی مدد سے اُنھیں تربیت بھی دی جاتی ہے۔جس کی بلوچ لیڈروں اور تنظیموں نے ہر وقت سخت مزمت کرتے ہوئے تردید کرچکے ہیں۔حالانکہ پاکستان خود اپنے کرایہ کے قاتلوں کے زریعئے سرحد پار افغان سرزمین پر بلوچ خواتین اور بچوں پر کئی بار بزدلانہ و دہشتگرد حملے کرواچکا ہیں۔