دوشنبه, سپتمبر 30, 2024
Homeخبریں’افغانستان، انتہا پسندوں کا قبرستان‘، اشرف غنی امریکی کانگریس میں

’افغانستان، انتہا پسندوں کا قبرستان‘، اشرف غنی امریکی کانگریس میں

واشنگٹن(ہمگام نیوز) افغانستان کے صدر اشرف غنی نے امریکی کانگریس سے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ افغانستان میں ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے و الی جنگ میں خدمات اور قربانیوں کے لیے ’ریاست ہائے متحدہ امریکا کے عوام‘ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

اشرف غنی جب کانگریس میں اپنے خطاب کے لیے پہنچے تو امریکی ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے ارکان نے اُن کا پُر جوش خیر مقدم کیا۔ اپنے اس تاریخی خطاب میں افغان صدر نے کہا:’’ہم اُن ہلاک ہو جانے والے دو ہزار تین سو پندرہ امریکی فوجی مردوں اور خواتین کے ساتھ ساتھ اُن بیس ہزار سے زیادہ زخمیوں کے بھی زیرِ بارِ احسان ہیں، جنہوں نے اپنے اور ہمارے وطن کے لیے یہ قربانیاں دیں۔‘‘

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ امریکا کے اس دورے کے دوران اشرف غنی اور اُن کے پیش رو حامد کرزئی میں طرزِ انداز اور حقیقی شخصی صفات دونوں اعتبار سے ایک واضح فرق دیکھا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ کرزئی کے دورِ اقتدار کے آخری برسوں میں واشنگٹن انتظامیہ کے ساتھ اُن کے تعلقات خاص طور پر بہت تلخ ہو گئے تھے۔

اشرف غنی نے اپنے خطاب میں واشنگٹن انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کے ’احیاء‘ کو خراجِ تحسین پیش کیا اور طالبان اور غربت کے ہاتھوں تباہ حال اپنے ملک کو سہارا دینے کے سلسلے میں امریکی کانگریس کے کردار کو پُر زور انداز میں سراہا۔ انہوں نے کہا:’’امریکا کی فوجی یا سول انتظامیہ کے خواتین و حضرات نے ہمارے ملک میں جو خدمات انجام دی ہیں، وہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی کانگریس کی اُس تائید و حمایت کے نتیجے میں ممکن ہو سکیں، جو کسی سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر کی گئی تھی۔ اس کے لیے اپنی پارلیمنٹ اور اپنے عوام کی جانب سے مَیں آپ کو سلام پیش کرتا ہوں اور آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘

چھ ماہ پہلے برسرِاقتدار آنے والے غنی نے اپنے اس خطاب میں کہا کہ امریکیوں نے نہ صرف انتہا پسندی کے خلاف جنگ کرتے ہوئے بلکہ پرائمری اسکولوں میں تین ملین سے زیادہ لڑکیوں کے اندراج میں مدد دیتے ہوئے اور افغانوں کی 2002ء میں محض چوالیس سال کی اوسط عمر کو آج کل کی ساٹھ سال تک کی عمر تک لے جانے میں بھی معاونت کرتے ہوئے اُن کی قوم کو ’امید‘ کا ایک زبردست تحفہ دیا ہے۔

غنی نے کہا:’’مَیں اِس پھر سے جنم لینے والی امید کے تحفے کا جواب دینا چاہوں گا۔ مَیں امریکی عوام کو ایک ایسی قوم کے ساتھ پارٹنرشپ کی پیشکش کرتا ہوں، جو آزادی کے نصب العین کے ساتھ پوری طرح سے مخلص ہے اور جو دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف جنگ میں آپ کے ساتھ ہوگی۔

اپنے اس تاریخی خطاب کے دوران اشرف غنی نے مغربی طرز کا ایک گہرے رنگ کا سُوٹ پہن رکھا تھا جبکہ کرزئی نے 2004ء میں امریکی کانگریس سے خطاب میں روایتی افغان جبّہ پہن رکھا تھا۔

اشرف غنی نے حامد کرزئی کی جانب سے ایک دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخطوں سے انکار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تب ایک اچھا موقع گنوا دیا گیا، جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات بے یقینی کا شکار ہو گئے۔ تاہم غنی نے زور دے کر کہا کہ اب دونوں ملک اُس نقصان کو پورا کر چکے ہیں۔

اشرف غنی نے منگل کو وائٹ ہاؤس میں صدر باراک اوباما کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر اوباما نے افغانستان سے اپنے فوجی دستوں کے انخلاء کی رفتار سست کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں امریکی دستوں کی موجودہ نفری نو ہزار آٹھ سو کو اس سال کے آخر تک برقرار رکھا جائے گا۔

امریکی کانگریس سے اپنے اس خطاب میں اشرف غنی نے افغانستان کے لیے دہشت گرد گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے بڑھتے ہوئے خطرے سے بھی خبردار کیا اور کہا کہ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے خطّے کو متحد ہونا ہو گا۔

اشرف غنی نے مزید کہا:’’ہمارے جنوب کی جانب دہشت گردی کے انسداد کے لیے جاری پاکستانی آپریشن میں اب تک چالیس ہزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ یہ آپریشن جنوبی وزیرستان سے طالبان کو افغانستان کے سرحدی علاقوں میں دھکیل رہا ہے۔‘‘

افغان صدر نے زور دے کر کہا کہ اُن کے ملک کے عوام پُر تشدد اسلام کا سبق دینے والوں کی ترغیب کو رَد کر چکے ہیں اور افغانستان القاعدہ اور ملک میں داخل ہونے والے دیگر انتہا پسند گروہوں کے لیے ’قبرستان‘ ثابت ہو گا۔

‘‘

یہ بھی پڑھیں

فیچرز