شنبه, جنوري 11, 2025
Homeخبریںاگر ہم ایک دوسرے پر بھروسہ کریں تودشمنوں میں آج اتنی سکت...

اگر ہم ایک دوسرے پر بھروسہ کریں تودشمنوں میں آج اتنی سکت نہیں کہ وہ بلوچ تحریک آزادی کو ختم کرسکیں:حیربیار مری

برلن ( ہمگام نیوز ) فری بلوچستان موومنٹ کی جانب سے میڈیا کو جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق متحدہ آزاد بلوچستان کیلئے بر سرپیکار آزادی پسند پارٹی فری بلوچستان موومنٹ کے سربراہ حیر بیار مری نے 25 جنوری کو جرمنی برانچ کے ساتھ منعقد ہونے والی ایک آن لائن میٹنگ میں بعنوان “عالمی سیاست و بلوچ قوم کے کردار” پر تبادلہ خیال کیا۔ اس میٹنگ میں پارٹی کے مرکزی عہدیداروں نے بھی حصہ لیا۔ اس موقع پر ایف بی ایم کے ممبران نے پارٹی سربراہ سے مختلف موضوعات پر سوالات کیئے۔
خطے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور عالمی سیاست کےبارے میں ایف بی ایم کے حالیہ سیاست و موقف اور ایران کے زیر قبضہ بلوچستان کے اوپر ظلم و بربریت کے خلاف پارٹی کی جانب سے عالمی سطح پر آواز اٹھانے کے بارے میں ایک ممبر نے سوال کیا کہ اس طرح سے ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں مقیم چند بلوچ فیملیز کے لیے خطرات و مشکلات پیدا نہیں ہوسکتے؟ جس کے جواب میں پارٹی صدر کا کہنا تھا کہ ایران کے زیر قبضہ بلوچستان میں چند پناہ گزین خاندان ہونگے جبکہ وہاں کے رہائشی بلوچ 6 ملین سے زیادہ ہیں، کیا ان کو خطرات لاحق نہیں؟ وہاں کے بلوچ مشرقی مقبوضہ بلوچستان سے کہیں زیادہ ایرانی ظلم وبربریت کا شکار ہیں اور اگر ہم ان کی آواز بنیں گے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا ردعمل بھی قابض کی طرف سے اتنا ہی خطرناک ہوگاجیسا کہ یہی عمل دوسری طرف پاکستان ستر سالوں سے کرتا آرہا ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں، دراصل یہ خطرات پہلے بھی تھے آگے بھی ہونگے۔ اگر ہم انہی خطرات کی وجہ سے خاموش رہے تو دشمن ہماری قوم، کلچر اور شناخت سب کچھ ختم کردیگا۔ اسی طرح تو یورپ میں بھی آزادی کی بات کرنے پر مسائل ہوسکتے ہیں، اگر ہم کہیں کہ ہمیں یہاں بھی خطرات درپیش ہو سکتے ہیں تو کیا تب بھی خاموشی اختیار کیا جائے؟ جیسے کہ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں چینی سفارت خانے کے سامنے آزاد بلوچستان کے بیرک کو لے کر ہمیں مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر ہم نے خاموش رہنے کی بجائے بھرپور انداز میں اپنی ملی بیرک کی نہ صرف دفاع کی بلکہ اسے چائنیز ایمبیسی کے سامنے پر اعتماد انداز و قومی فخر کے ساتھ لہرایا۔ خاموشی، بیگانگی اور قومی مقصد سے لاتعلقی کی قیمت پر تو مقبوضہ مشرقی بلوچستان میں بھی زندہ رہنا ممکن ہے مگر بلوچ فرزند صرف زندہ رہنے کے لئے قوم، کلچر، تاریخ، شناخت اور مادریں وطن کو قربان کرنے سے انکاری ہیں اور اسی وجہ سے وہ آج اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ قابض کے خلاف مزاحمت میں خطرات کوئی نئی بات نہیں، انسانی تاریخ میں مزاحمت، قومی آزادی کی جنگ میں نقصانات کی ہی مثالیں ہیں اور ہمیں بھی اس کے لئے تیار رہنا ہوگا۔

افغانستان کے زیر انتظام شمالی بلوچستان بلوچ سر زمین کے ایک حصے کے بارے میں ایف بی ایم کے دوسرے ممبر کی جانب سے پارٹی موقف پوچھنے پر بلوچ رہنما کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ہم افغانستان کے ساتھ مل بیٹھ کر گفت و شنید کرسکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن جو کہ بلوچ سرزمین کو تقسیم کرتی ہے ہماری طرح افغان خود بھی اسے نہیں مانتے۔ جس سامراجی لکیر کی بنیاد پہ بلوچستان پہ قبضہ ہوا اگر اسے وہ نہیں مانتے تو اسی بنیاد پر افغان و بلوچ کو باہمی گفت و شنید سے یہ مسئلہ حل کرنے پر توجہ دینی چاہئے، کیونکہ اگر دو تاریخی ہمسایہ قوموں کے درمیان کوئی حل طلب مسئلہ باہمی گفت وشنید سے حل ہوسکتا ہے تو وہاں جنگ کی کوئی ضرورت ہی نہیں ۔
ایران امریکہ جنگ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں بلوچ رہبر واجہ حیربیار مری کا کہنا تھا کہ جنگ سے کوئی بھی باشعور انسان خوش نہیں مگر جہاں ہمارے حق میں فائدہ ( آزادی کی صورت میں ) موجود ہو تو اس میں کوئی خرابی نہیں ۔ انھوں نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اگر ایران جنگ میں نہ پڑا تو وہ اپنی ریاستی طاقت مظلوم بلوچ،کرد یا دوسرے اقوام کے خلاف اسی طرح استعمال کرتا رہے گا ۔ جنگ شروع ہونے کی صورت میں اس کی طاقت کمزور اور تقسیم ہو کر اسکی زیادہ تر توجہ امریکہ اور اپنی دفاع کی جانب مرکوز ہوگی جو کہ ہمارے لیئے زیادہ سودمند رہے گی ۔ مگر ہاں محض یہ سوچنا کہ کوئی دوسرا آکر ہمیں آزادی دلوائے گا تو ایسا ہونا مشکل ہے۔ اس لیئے ضروری ہے کہ ہمیں محنت کرکے اپنے مادر وطن کیلئے خود قربانی دینی ہوگی،جو کہ وقت ، جان، مال اور ہر قسم کے وسائل کی ہوگی۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہر قوم کے اندر آپسی مشکلات و اختلافات ہوسکتے ہیں ہمارے درمیان بھی مشکلات ہیں۔کوئی آزادی کی بات کرتا ہے تو کوئی حق خودارادیت کی۔ یہاں میں یہ دیکھتا ہوں کہ ہم میں سے اگر کوئی اسلام کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ سرزمین کی آزادی کی بات کرے تو ہم اس کے خلاف کیوں ہوں؟ اگر کوئی مارکسسٹ یا ملا ہے اور کسی بھی طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والا ہو اگر وہ بلوچستان کی آزادی کی بات کرتا ہے تو ہمیں اسے تسلیم کرنا چاہئے۔ بعض لوگ عظیم قومی مقصد کو چھوڑ کر دوسروں کے مقاصد کیلئے ملاوں کے خلاف ہوگئے، میرے خیال میں یہ ہر گز صحیح نہیں ہے۔ ہمیں مل کر خالص بلوچ قومی آزادی کے راستے پر چلنا ہوگا اور ہاں ہمارے آزادی پسندوں کی صفوں میں ان لوگوں کے لیئے بالکل بھی جگہ نہیں ہونی چاہیئے جو بلوچ قوم کی غلامی کو طول دینے کی بات کرتے ہیں۔اگر ہم یہ بات سمجھ جائیں اور فیصلہ کرلیں کہ ہمیں آزادی چاہیئے اور قربانی دینے کے لئیے تیار رہیں تب ہم کامیابی سے ہمکنار ہونگے۔ ہمیں دوسری اقوام کے ساتھ برابری کی بنیاد پہ تعلقات قائم کرنے چاہئیں غلامی کے ساتھ ہر گز نہیں۔ ہم معاشی طور پر کمزور اور استحصال کے ضرور شکار ہیں مگر غیرت اور ہمت میں کسی سے کم نہیں! ہمیں اپنی قوم پہ فخر ہونا چاہیے اور دنیا کی قوتوں سے برابری کی بنیاد پر تعلق کو بڑھانا چائیے۔
مختصراََ خاموش نہیں رہنا چاہئیے اس سے ہماری قومی تباہی ہوگی۔ مرنے سے ہم ختم نہیں ہونگے بلکہ خاموش رہنے سے قومیں مٹ جاتی ہیں۔

عالمی قوتوں کی بلوچ قومی تحریک آزادی کو کمک کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بیرونی دنیا سے آج بھی ہمیں کوئی مدد حاصل نہیں، لیکن ہماری جدوجہد کی کامیابی کی اصل وجہ ہمارا مضبوط ڈسپلن تھا۔ اگر ڈسپلن نہ رہے تو جہد کا تسلسل جمود کا شکار رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری تحریک اس کا سخت شکار ہے، لہٰذا تنظیمی ڈسپلن اولین شرط ہونی چاہئیے۔ ہر جدوجہد میں بھروسہ و اعتماد ہی سب کچھ ہے، اگر یہ نہ رہا تو کامیابی بہت مشکل ہوگی۔ ہمارے درمیان بھروسہ کے فقدان کی وجہ سے ہی مسائل جنم لیتے رہے ہیں۔اسکی وجہ سے دشمن ہمارے اندر بدگمانیاں پیدا کرتا رہا ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے پر بھروسہ کریں تو ہمارے دشمنوں میں آج اتنی سکت نہیں کہ وہ بلوچ قومی تحریک آزادی کو کمزور یا ختم کرسکیں۔ مختصراََ، دنیا نے ہمیں مدد کی ہے اور نہ ہی ہمیں اتنا نقصان پہنچایا ہے۔ ہماری اصل طاقت ہمارا ڈسپلن ہے اور بعض جگہوں پر ہم نے اپنی تحریک کو خود نقصان پہنچایا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ وقتی فائدوں کو دیکھنا نہیں چاہیئے بلکہ دور اندیشی سے قومی مفادات کے متعلق سوچنا چاہیئے۔ سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے سے گریز کرنا چاہئیے جس سے ہمارے درمیان مزید آپسی بد گمانی اور غلط فہمیاں جنم لینگی۔

 

مغربی مقبوضہ بلوچستان میں کام کرنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میری اپنی ذاتی رائے ہے کہ مغربی مقبوضہ بلوچستان میں سیاسی شعور کے حوالے سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں پہ قومی جزبے کو ابھارنا ہوگا ایک سسٹم کے تحت اسٹیپ بائی اسٹیپ کام کرکے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ہمیں اپنی عوام کو اپنی قومی تاریخ کے متعلق بتانا ہوگا اپنے تاریخ ساز شخصیات کے متعلق سیاسی آگاہی دینا ہوگی۔ جہاں تک ایران امریکی جنگ کا تعلق ہے میرا خیال ہے امریکہ اس وقت محض ایران پر پریشر برقرار رکھے گا اگر ٹرمپ الیکشن جیت کر دوبارہ صدر منتخب ہوا تو پھر ایران پہ حملہ ہونے کے امکانات زیادہ بڑھ جائینگے۔
یہی موقع ہے کی ہم اپنی طرف سے کسی بھی قسم کے حالات کے لیے تیار رہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز