اسلام آباد (ہمگام نیوز) پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما عارف وزیر قاتلانہ حملے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں دم توڑ گئے ہیں۔
پولیس کے مطابق عارف وزیر کو جمعے کی رات کے وقت ڈیرہ اسماعیل خان سے اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا۔ یہ افسوسناک واقعہ کل بروز جمعہ افطار سے چند منٹ پہلے پیش آیا اور اس کے نتیجے میں عارف وزیر کو تین گولیاں لگی تھیں جس سے وہ شدید زخمی تھے اور آج ان کی شہادت ہوگئی۔
ذرائع نے بتایا کہ عارف وزیر کا پانچ گھنٹے طویل آپریشن ہوا تھا۔ آپریشن کے بعد وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ عارف وزیر کے قریبی ذرائع کے مطابق عارف وزیر کی تدفیق وانا میں کی جائے گئی جس کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ٹوئٹر پر پیغام میں عارف وزیر کے شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ عارف وزیر کو ’گڈ‘ دہشت گردوں نے قتل کیا
ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہماری اِن کے ماسٹرز کے خلاف جدو جہد جاری رہے گی‘
محسن داوڑ نے اس سے قبل کی گئی ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں کو ریاستی پشت پناہی حاصل تھی۔ انھوں نے کہا کہ حملہ آوروں کے سرپرستوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ گولیاں، زخم اور جیلیں ہمارے عزم کو کمزور نہیں کر سکتیں، آپ کو شکست ہو کر رہے گی۔
صوبہ خیبر پختوںخواہ پولیس ذرائع کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان اور وزیرستان میں اس وقت سخت ترین حفاظتی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ پولیس اس وقت عارف وزیر کے قاتلوں کی تلاش کے لیے جگہ جگہ چھاپے ماررہی ہے۔
عارف وزیر پشتون تحفظ موومنٹ کے سرگرم رکن، انتہائی سخت بیانیہ رکھنے والے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ اس سے پہلے بھی اس خاندان کو پاکستان کے پالے ہوئے دہشت گرد نشانہ بناتے رہے ہیں اور اب تک اس خاندان نے دسیوں شہیدوں کے جنازے اٹھائے ہیں۔
پولیس کے مطابق وہ چاروں طرف پھیل چکی ہے وانا اور پورے وزیرستان میں ہر گاڑی کی تلاشی لی جا رہی ہے اور نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔
عارف وزیر کا شمار جنوبی وزیرستان کی اہم شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کو اہم رہنما سمجھا جاتا تھا۔ عارف وزیر جنوبی وزیرستان کی سیاست میں بھی فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان کا شمار پشتون تحفظ موومنٹ کے اہم اور بانی رہنماؤں میں کیا جاتا ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے ذرائع کے مطابق گذشتہ دو سالوں کے دوران ان پر مختلف مقدمات قائم ہوئے تھے۔ جن میں انھوں نے گذشتہ دو سالوں کے دوران کم از کم پندرہ ماہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں گزارے تھے مگر ان کے بلند حوصلے کسی بھی قید سے آزاد رہے اور اسی وجہ سے بزدل دشمن ان کی سانسیں برداشت نہ کرسکااور ان کو شہید کردیا گیا۔
ان پر دائر مقدمات تاحال مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
عارف وزیر زمانہ طالب علمی ہی سے قوم پرست سیاست میں فعال کردار ادا کرتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں وہ پختوںخواہ ملی اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنما تھے۔
رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا دعویٰ ہے کہ عارف وزیر پر دہشت گردوں نے فائرنگ کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم بار بار بتا رہے ہیں کہ اس وقت دہشت گرد وانا اور وزیرستان میں دندناتے پھر رہے ہیں جہاں انہوں نے اپنے دفاتر قائم کررکھے ہیں اور وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے
ہوئے ہیں۔محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ عارف وزیر بھی اسی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ حملہ ہمیں مشتعل کرنے کی سازش ہے تاکہ پرامن لوگ مشتعل ہوں۔ امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو اور حالات سنگین ہوں مگر پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنان مشتعل نہیں ہوں گے اور پرامن طور پر اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔
محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ اس واقعہ پر پشتون تحفظ موومنٹ بھرپور احتجاج کرے گی۔
عارف وزیر پر فائرنگ کے واقعے کے بعد پاکستان اور بیرونی ممالک سے بڑی تعداد میں پشتون تحفظ موومنٹ کے حامیوں نے واقعے کی مذمت کی ہے۔
پی ٹی ایم کی خاتون رہنما ثنا اعجاز کا کہنا تھا کہ یہ بدترین دہشت گردی کا واقعہ ہے جس پر خاموش نہیں رہیں گے۔
یاد رہے کچھ عرصہ قبل پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ جنرل آصف غفور نے پی ٹی ایم کے کامیاب پر امن سیاسی سرگرمیوں سے عاجز آکر انہیں سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی ایم ریڈ لائن کو کراس کرچکی ہے جسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
مزید برآں عارف وزیر کے قتل کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیاء برانچ نے ٹوئیٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان ان کے قتل کی فوری اور صاف و شفاف موثر تحقیقات کرکے نتائج سامنے لائے۔