سه شنبه, اکتوبر 1, 2024
Homeاداریئے بلوچستان میں آپریشن کے شدت میں اضافہ اور پاکستان...

بلوچستان میں آپریشن کے شدت میں اضافہ اور پاکستان کی بدلتی پالیسی

  (ہمگام اداریہ)
گذشتہ دن بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ کے قریبی علاقے گوربرات سے چار لاپتہ بلوچوں کی لاشیں منظر عام پر آئی ہیں ،جن میں سے دو کی شناخت عامر جمالدینی بلوچ اور محمد قضافی بلوچ کے نام سے ہوئی اور باقی دو کی ابتک شناخت نہیں ہوسکی ہے ۔ عامر جمالدینی کو چار ماہ پہلے بلوچستان کے علاقے نوشکی جبکہ قضافی بلوچ کو پچھلے سال کوئٹہ سے پاکستانی خفیہ اداروں نے اغواءکیا تھا ۔ یاد رہے کے دونوں کے لواحقین وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجوں میں بھی ساتھ رہے تھے ۔ یوں تو اس طرح مسخ شدہ لاشوں کا ملنا بلوچستان میں معمول کی بات ہے ابتک بلوچستان سے 18000 سے زائد بلوچ سیاسی کارکنوں کو مارائے قانون خفیہ ادارے اغواءکرچکے ہیں جن میں سے کم از کم 1600 کی مسخ شدہ لاشیں انتہائی تشدد زدہ حالت میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے منظر عام پر آتی رہی ہیں ، انہی لاپتہ بلوچوں کے 169 لاشیں بلوچستان کے علاقے توتک سے ایک اجتماعی قبر کی صورت میں بھی منظر عام پر آئیں تھی جس کے بعد یہ قوی امکان پایا جاتا ہے کہ اس طرح کے کئی اور اجتماعی قبریں بلوچستان میں وجود رکھتے ہیں لیکن حالیہ مسخ شدہ لاشوں کے منظر عام پر آنے کو اسطرح غیر معمولی خیال کیا جاتا ہے کہ ان بلوچ سیاسی کارکنوں کو روایتی طور پر شہید کرکے پھینکا نہیں گیا بلکہ ایک فوجی آپریشن کے دوران پاکستانی فوج نے ان لاپتہ بلوچوں کو جائے وقوعہ پر لاکر فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑی کرکے شہید کردیا اور بعد میں میڈیا میں آکر یہ ظاھر کیا گیا مذکورہ افراد عسکریت پسند تھے اور دوران آپریشن مقابلے میں جانبحق ہوئے ، حالانکہ ان افراد کے اغواءکی خبر چھپی ہوئی نہیں تھی اور انکے اہلخانہ مہینوں سے احتجاج کررہے تھے ۔
یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ بھی نہیں ہے اس سے پہلے سال 2013 میں بلوچستان کے علاقے گومازی میں دوران آپریشن 2 لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنان کی لاشیں پھینک کر انہیں مقابلے میں جانبحق قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی جن کے نام عاصم بلوچ اور عمر بلوچ تھے، اسی طرح 2013 میں بھی ایک بلوچ قصبے پر چھاپہ مار کر کئی بلوچوں کو پاکستانی فوج نے اغواءکیا تھا کچھ دن بعد ان بلوچوں میں سے 8 بلوچوں کو شہید کرکے بلوچستان کے ضلع بولان میں انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی تھی جنہیں بعد ازاں پاکستان نے انہیں مقابلے میں شہید کرنے کا دعویٰ کیا تھا حالانکہ ان لاشوں کے جسموں پر تشدد کے نشان عیاں تھے ، اسی طرح گزشتہ سال ڈیربگٹی کے علاقے میں دوران آپریشن لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنان کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ آپریشن والے علاقے میں پھینک کر یہ ظاھر کیا گیا کہ وہ دوران آپریشن مقابلے میں شہید ہوئے ہیں ، ایک اور واقعے میں دوبارہ گومازی میں دوران فوجی آپریشن لاپتہ بلوچوں کی لاشیں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سے پھینکی گئی ۔
بلوچ مبصرین واقعات کے ان تسلسل کو پاکستان کے پالیسی میں تبدیلی قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے بدنام زمانہ پالیسی ” مارو اور پھینکو “ میں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کا ہاتھ اتنا نمایا ں تھا کہ دنیا کے تمام موتبر انسانی حقوق کے تنظیموں نے پاکستان پر تنقید کرکے اس پالیسی کو عیاں کردیا جس کے تحت بلوچوں کو اغواءکرکے شدید تشدد کا نشانہ بناکر شہید کیا جاتا تھا اور انکی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف کونوں میں پھینکی جاتی ، اب پاکستانی فوج دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے بلوچ لاپتہ سیاسی کارکنوں کو آپریشنوں کے دوران ہیلی کاپٹروں سے گراکر یا فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑی کرکے شہید کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ لاپتہ بلوچوں کی لاشیں نہیں بلکہ مقابلے میں جانبحق ہونے والے عسکریت پسند ہیں ، بلوچ سیاسی مبصرین نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ پاکستانی فوج اب اس طرح کے کاروائیوں میں تیزی لاکر تمام لاپتہ بلوچ اسیران کو اسطرح شہید کرنا چاہتا ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ پاکستان کو ان سنگین خلاف ورزیوں سے روکیں ۔
اسی بابت بلوچ آزادی پسند سیاسی حلقوں کی طرف سے موقف آیا ہے کہ پاکستانی فوج نے بلوچستان میں فوجی آپریشن کے شدت میں مزید اضافہ کردیا ہے اور اب جہاں ایک طرف لاپتہ بلوچ اسیران کو جعلی مقابلوں میں شہید کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے وہیں بلا امتیاز بمباری اور جبری گمشدگیوں کی تعداد میں بھی ہوشربا اضافہ ہورہا ہے ، گذشتہ دنوں بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے 18 بلوچوں کو پاکستانی فوج نے اغواءکرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے ، ان 18 بلوچوں میں زیادہ تر تعداد بلوچ خواتین اور بچوں کی ہیں حتیٰ کے ان میں دو شیر خوار بچے بھی شامل ہیں ، ان واقعات سے ظاھر ہوتا ہے کہ اب پاکستان بلوچستان میں سفاکیت وہ تاریخ رقم کرنا چاہتا ہے جو انہوں نے 1971 میں بنگلہ دیش میں کیا تھا ۔ انہوں نے عالمی اداروں سے بھی اپیل کرتے ہوئے ان واقعات کی نوٹس لینے کا اپیل کیا ہے ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز