سه شنبه, دسمبر 24, 2024
Homeخبریںامن مذاکرات کے انعقاد سے قبل باغی گروپ سے حملوں کو روکنے...

امن مذاکرات کے انعقاد سے قبل باغی گروپ سے حملوں کو روکنے کی بات غیر منطقی ہے: طالبان

کابل(ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری میں ہونے والے امن معاہدے کے تحت بین الافغان امن مذاکرات ہونے تھے، جو مسلسل التوا کا شکار ہیں، افغانستان کی دو عشروں پر محیط جنگ کے خاتمے کا سارا انحصار ان مذاکرات پر مرکوز ہے۔

افغانستان کے طالبان کا کہنا ہے کہ بین الافغان امن مذاکرات کے انعقاد سے قبل باغی گروپ سے حملوں کو روکنے کی بات غیر منطقی ہے، طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک میڈیا ریلیز میں لکھا کہ یہ انتہائی غیر منطقی تقاضا ہے کہ پہلے لڑائیاں ختم ہوں اور پھر امن مذاکرات شروع کیے جائیں۔ جنگ اس لیے جاری ہے کہ ہمیں اب بھی متبادل راستے کی تلاش ہے۔

انہوں نے اتوار کو جاری کردہ اپنے بیان میں کہا کہ بین الافغان امن مذاکرات جنگ کے خاتمے کی شرط اول ہیں۔

امن مذاکرات افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے معاملے پر آ کر پھنس گئے ہیں، مجاہد نے زور دے کر کہا کہ فوری طور پر قیدیوں کے تبادلے کو مکمل کر کے افغان فریقوں کے درمیان بات چیت کا آغاز کیا جانا بے حد ضروری ہے، مسئلے کو حل کرنے کا یہ حقیقی اور منطقی راستہ ہے۔

افغانستان کے تمام فریقوں کے درمیان مارچ میں مذاکرات ہونے تھے مگر قیدیوں کے تبادلے میں اختلاف کی وجہ سے یہ اب تک التوا کا شکار ہیں۔

افغان حکومت کہتی ہے کہ اس نے اب تک 4 ہزار سے زیادہ طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا ہے جب کہ وعدےکے مطابق اسے 5 ہزار قیدی رہا کرنے تھے، دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے انہوں نے 770 افغان حکومت کے قیدیوں کو چھوڑ دیا ہے جب کہ انہوں ایک ہزار قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیا تھا۔

حالیہ ہفتوں میں طالبان کے حملوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کے علاوہ لاتعداد شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں، انہی حملوں کو جواز بنا کر صدر غنی نے بقیہ طالبان قیدیوں کی رہائی کو مشروط بنا دیا ہے، افغان حکام کا کہنا ہے طالبان قیدیوں پر بے گناہ شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کے اہل کاروں کے قتل کا الزام ہے۔

افغان صدارتی ترجمان صدیق صدیقی نے اتوار کو ایک بار پھر طالبان سے کہا کہ وہ تشدد کو ترک کر کے مذاکرات کی میز پر آئیں، انہوں نے اپنے ٹویٹ پیغام میں لکھا کہ افغانستان کے شہروں میں پرتشدد واقعات میں اضافے، سیکیورٹی فورسز پر بموں کے بڑھتے ہوئے حملوں نے افغانستان کے عوام اور بین الاقوامی برادری کی امیدوں اور توقعات پر پانی پھیر دیا ہے، مذاکرات کے ذریعے قیام امن کی کوششںیں ماند پڑ رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز