واشنگٹن (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق امریکا کے دو بمبار طیارں نے گذشتہ روز مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک کی فضائوں میں پرواز کی۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ پروازیں خطے میں ایرانی مداخلت کے خلاف تہران کے لیے واضح پیغام ہیں کہ اگر ایران نے خطے میں کسی قسم کی تخریبی کارروائی کی کوشش کی تو اسے سخت جواب دیا جائے گا۔
امریکی طیاروں نے کل جمعرات کے روز خلیجی پانیوں پر اڑانیں بھریں۔ یہ ایک ماہ کے دوران امریکی جنگی طیاروں کی دوسری پروازیں ہیں۔
اس خطے پر دو ‘بی 52 ایچ اسٹریٹفریس’ طیاروں کی پروازایک مہینے سے بھی کم عرصے میں اپنی نوعیت کی دوسری پرواز تھی۔ یہ پروازیں امریکا کے مشرق وسطی کے ساتھ جاری وابستگی کا اشارہ ہے۔ اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے افغانستان اور عراق سے ہزاروں فوجیوں کو واپس بلا لیا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں پرواز کرنے والے ‘بی 52’ جنگی طیارے روایتی اور جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عام طورپرامریکاکے چھوٹے جنگی طیارے ہی مشرق وسطیٰ میں پرواز کرتے رہے ہیں۔ ‘بی باون’ جیسے بمبار طیارے مشرق وسطی میں بہت کم پرواز کرتے ہیں۔ دشمنوں نے اپنے علاقے میں بمبار طیاروں کی پروازوں کے بارے میں اکثر شکایت کی اور انہیں اشتعال انگیزی قرار دیا جاتا رہا ہے۔
مشرق وسطی کے خطے کے اعلی امریکی عہدیدار جنرل فرینک میک کینزی نے ایک بیان میں کہا ایک نان اسٹاپ مشن کے دوران دنیا بھر میں اسٹریٹجک بمبار طیاروں کی اڑانیں، متعدد علاقائی شراکت داروں کے ساتھ قریبی کاروباری تعلقات اور علاقائی سلامتی اور استحکام کے لیے ہماری مشترکہ وابستگی کی عکاسی کرتی ہے۔
امریکی حکام نے رواں سال جنوری میں بغداد ہوائی اڈے کے قریب ایرانی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی اور عراقی ملیشیا کے سینیر رہ نماؤں کی ہلاکت کا ایک سال مکمل ہونے پر ایران کی طرف سے ممکنہ جوابی اور انتقامی کارروائی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا عراق میں امریکی تنصیبات پر معمول کے مطابق میزائل فائر کرتے رہے ہیں۔ امریکیوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایرانی حمایت یافتہ ملیشیائیں زیادہ مہلک حملہ کر سکتی ہیں۔