کویٹہ (ھنگام نیوز) بساک کے سینئر کارکنوں کا مشترکہ اجلاس بساک اوتھل زون کے سابقہ وائس پریزیڈنٹ حسن خان بلوچ کے زیرصدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں تنظیمی امور، تنقیدی نشست اور آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔
اس اجلاس میں بساک اوتھل زون، کراچی زون، پنجگور زون، شال زون اور دیگر زونز کے سینئر کارکنوں نے شرکت کی۔
اجلاس میں کارکنوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ بساک وہ طلباء تنظیم ہے جس کے پلیٹ فارم پر جدوجہد کرتے ہوئے بلوچ طلباء نے سیاسی، عملی اور ادب کے میدان میں شعوری آبیاری حاصل کی ہے۔ بساک بلوچستان میں واحد طلباء تنظیم ہے جو کسی پارٹی کا پاکٹ آرگنائزیشن نہیں رہا ہے۔ 2009 سے لیکر 2018 تک کے دورانیے میں بساک کے سابقہ دوستوں کی قربانیاں قابل تحسین ہیں اور بلوچ طلباء سیاست میں انکی قربانیاں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طلباء کے مسائل کو حل کرنے میں بساک کے دوست ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ سابقہ چیئرمین رشید کریم کی انتھک قربانیوں کی بدولت تعلیمی اداروں میں باقاعدہ طور پر بساک کے مختلف زونز تشکیل دیے گئے اور تنظیمی سرگرمیوں کو منظم انداز میں جاری رکھا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ تنظیم بنانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ طلباء کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرکے تعلیمی اداروں میں انکے مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ انکو سیاسی، علم و ادبی تربیت دینا ہے اور مادری زبانوں کی ترویج کیلئے جدوجہد کرنا ہے۔
انہوں نے موجودہ تنظیمی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بساک میں اقرباء پرورانہ سیاست نے تنظیم کو تباہی کی جانب گامزن کر دیا ہے۔ جسمیں غیر جمہوری اور غیر آئینی بنیاد پر قائم موجودہ قیادت نے تنظیمی اسٹرکچر کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ 2018 سے پہلے اور بعد کے پالیسیوں اور صورتحال پر تبصرہ کیا جائے تو دن بہ دن تنظیم بحران کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور تنظیمی سرگرمیاں مکمل طور پر جمود کا شکار ہیں۔ 2018 کے کونسل سیشن میں باقاعدہ طور پر یہ فیصلہ لیا گیا تھا کہ ہر چھ مہینے میں بساک اپنے کارکنوں کو لیٹریچر ” فراہم کرے گا لیکن پورے دو سال کے دورانیے میں بمشکل ایک لیٹریچر مہیا کر سکا۔ جسمیں ایسے مواد شامل نہیں تھے کہ اراکین ان سے علمی وادبی اور سیاسی استفادہ حاصل کر سکیں۔ سلیکشن پالیسی کے تحت آنے والے زمہ داروں کے ہاتھوں بساک یرغمال رہا۔ کارکنوں کے جائز اور سیاسی حقوق پر مبنی سوالات کو دبانے کیلئے متعدد کارکنوں کو ناجائز اور غیر آئینی طور پر تنظیم سے فارغ اور معطل کیا گیا۔ حالانکہ دوستوں نے بساک میں انتہائی سیاسی اور مثبت تجویز پیش کیے تھے۔ جنمیں سب سے اہم تجویز یہ تھا کہ بساک کے زمہ داروں کو بلوچی اور براہوئی زبان کی ترویج کیلئے باقاعدہ طور اپنے تنظیمی بیانات اردو زبان کیساتھ ساتھ بلوچی اور براہوئی میں بھی شائع کرنی چاہیے۔ تنظیمی کونسل سیشن سے چار مہینے پہلے تمام زونز کے باڈی تحلیل کرکے ان میں باقاعدہ طور پر الیکشن کے زریعے زونل کابینہ کے زمہ داروں کا انتخاب کرنا چاہیئے تاکہ ان چار مہینوں میں ان کے تنظیمی سرگرمیوں اور سیاسی رویوں پر مشاہدہ کیا جائے آیا وہ مرکزی کابینہ میں زمہ داریاں لینے کے اہل ہیں۔ کارکنوں کی قابلیت اور سیاسی تجربے کے مطابق انہیں بطور کونسلر منتخب کریں تاکہ آنے والے کونسل سیشن میں سیاسی طور پر شعور یافتہ اور تجربہ کار دوستوں کو مرکزی کمیٹی اور مرکزی کابینہ میں زمہ داریاں نبھانے کا موقع مل سکے۔ لیکن بدبختی سے بساک کے مرکز نے اپنی اجارہ دارانہ اور اقرباء پرورانہ سیاسی رواج کو قائم رکھنے کیلئے انتہائی سینئر دوستوں کو تنظیم سے فارغ کر دیا گیا تاکہ تنقیدی اور اصطلاحی سوچ پر حامل کارکنوں کو بساک میں سیاست کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ حتیٰ کے مرکزی وائس چیئرپرسن نے کراچی یونیورسٹی میں اپنے ہی دیرینہ اور تجربہ کار کارکنوں کے وائس ریکارڈنگ کئے اور جب اس غیر سیاسی اور غیرآئینی عمل پر دوستوں نے آواز اٹھائی تو مرکزی وائس چیئرپرسن کو سزا دینے کے بجائے کارکنوں کو تنظیم سے معطل اور فارغ کر دیا گیا یہ غیر سیاسی اور غیر آئینی عمل بساک کے کارکنوں کی سیاسی حق تلفی اور چند لوگوں پر مشتمل بے جا مرکزیت، اجارہ دارانہ سیاست اور ڈکٹیٹرشپ کی عکاسی کرتا ہے۔ جسکی وجہ سے متعدد سینئر دوستوں اور زونل زمہ داروں نےمرکز سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔
بساک کے سینئر دوستوں نے موجودہ مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دو مرتبہ سینئر اور قابل قدر رہنماؤں پر مشتمل ثالثی کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ معاملات کا حل خوش اسلوبی اور گفت وشنید سے حل ہو۔ دوران گفت شنید مرکز سے لاتعلقی کرنے والے اراکین نے انتہائی سنجیدگی اور سیاسی عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تمام اختلافات کو ختم کرنے، نئے زونز کو تحلیل کرنے اور ایک ہی فلیٹ فارم پر دوبارہ جدوجہد کرنے پر متفق ہوئے۔ لیکن اپنی ضد اور انا پر قائم مرکز نے فارغ اور معطل شدہ کارکنوں کو نہ بحال کرنے پر متفق ہوئے اور نہ ہی انہیں ازسر نو ممبرشپ دینے کیلئے راضی ہوئے۔ اور یہ بات ثابت کر دیا کہ بساک میں تنقیدی اور اصطلاحی سوچ پر حامل کارکنوں کیلئے کوئی سیاسی اسفیس نہیں ہے۔
اجلاس میں نئے تجاویز پیش کئے گئے اور تنظیمی کاموں کو بہتر اور جمہوری انداز میں جاری رکھنے کیلئے آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے پر دوستوں نے ان پر غور کرنے کے بعد ان پر عمل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ اب بساک کے تنظیمی بیانات اردو زبان کے ساتھ ساتھ باقاعدہ طور پر مادری زبان “بلوچی اور براہوئی” میں بھی جاری ہونگے۔ اور بلوچ قوم کے قدیم تہزیب “مہرگڑھ” کے نام پر جلد از جلد ایک سیمینار منعقد کیا جائیگا اور کارکنوں کے سیاسی اور علمی و ادبی تربیت کیلئے باقاعدہ طور پر ایک الگ لٹریچر ترتیب دیا جائے گا ۔ بساک اپنے اس تنظیمی لٹریچر کو بھی “مہرگڑھ” کے نام سے جاری کریگا۔ اور کتاب کلچر کو فروغ دینے کیلئے کم سے کم سال میں دو مرتبہ “مہرگڑھ کتاب کارروان” کے نام پر بک اسٹال منعقد کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بساک تعلیمی اداروں میں طلباء کے تعلیمی مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد کو جاری رکھے گا۔ اور ہماری کوشش یہ ہوگی کہ بساک کو کسی بھی پارٹی یا دیگر اداروں کے پاکٹ آرگنائزیشن ہونے نہیں دینگے۔ اور بساک اپنی تنظیمی فیصلوں پر مکمل طور پر خود مختار ہوگا۔ کارکنوں کو انکے سیاسی حقوق میں برابری حاصل ہوگی اور بساک زونل سطح سے مرکزی کابینہ تک اپنے زمہ داروں کا چناؤ جمہوری انداز میں الیکشن کے زریعے منتخب کریگا تاکہ قابل اور سیاسی کارکنوں کو اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کا موقع فراہم ہو سکے۔
اجلاس میں طارق بروت کی سربراہی میں تین رکنی الیکشن کمیشن تشکیل دی گئی اور اراکین نے جمہوری انداز میں الیکشن کے زریعے تنظیمی زمہ داروں کا انتخاب کیا گیا۔ اور سات رکنی آرگنائزنگ باڈی تشکیل دی گئی۔ جن میں ڈاکٹر شکیل بلوچ مرکزی آگنائزر اور زبیر قومی مرکزی ڈپٹی آرگنائز منتخب ہوئے۔ اور مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر حاجی حیدر شوہاز، شاہ زیب بلوچ، نصیر قمبرانی بلوچ، گل حسن بلوچ اور امتیاز بلوچ منتخب ہوئے۔
اجلاس کے آخر میں بساک کے سینئر کارکن طارق بروت نے نو منتخب زمہ داروں سے حلف لیا اور تمام دوستوں نے مخلصی اور ایمانداری سے تنظیمی زمہ داریاں نبھانے کا اعادہ کیا گیا۔