کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ اسٹوڈنٹس آرگناٸزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے ستاٸیس (27) مارچ یوم جبری قبضہ کی مناسبت سے بیان جاری کرتے ہوٸے کہا کہ ستاٸیس مارچ انیس سو اڑتالیس کو ریاست برطانیہ کی ایماء پر پاکستان نے بلوچ سر زمین پر فوج بھیج کر جبری قبضہ کرنا تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔
ایک آزاد اور خود مختار ریاست کو فوجی طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کرنا انسانیت اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی توہین ہے۔
ایک نومولود ریاست جس کو قاٸم ہوٸے نو مہینے کا عرصہ نہیں ہوا ایک آزاد اور خود مختار ریاست پر قبضہ جمانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بلوچستان پر قبضہ جمانے کے لٸے پاکستان کو بیرونی طاقتوں کی تاٸید و حمایت حاصل تھی۔
اور یہ قبضہ پاکستانی توسیع پسندانہ ذہنیت کو بھی آشکار کرتا ہے جو طاقت کا بے دریغ استعمال کرکے مظلوم قوموں کی حق خود اختیاری اور آزادی کو سلب کرکے ان کی ہزارہا سالہ قدیم تاریخ و تہذیب کو مسخ کرتا ہے۔
ترجمان نے مذید کہا کہ بلوچستان پر برطانوی قبضے کے آخری عشرے میں محمد علی جناح نے ریاست قلات کے وکیل کی حیثیت سے بلوچستان کی خود مختاری کا کیس انگریزوں کے سامنے پیش کیا تھاجس سے واضح ہوجاتا ہے کہ برطانوی آمد سے قبل بلوچستان ایک آزاد و خود مختار ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود تھا۔لیکن اس خطے سے برطانوی انخلاء کے آخری عشرے میں محمد علی جناح نے فریب اور دھوکہ دہی کا سہارا لیتے ہوٸے بلوچستان پر قبضے کا منصوبہ بنایا۔محمد علی جناح نے چالاکی ,دھونس اور دھمکی اور نام نہاد سرداروں کو مراعات دیکر انہیں الحاق پر مجبور کردیا۔
جن سرداروں نے الحاق نامے پر دستخط کٸے انہیں کچھ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ قوم کے مقدر کا فیصلہ کرسکیں کیونکہ اس وقت بلوچستان میں اختیار کا مرکز و محور ریاست قلات تھا اور ریاست قلات کی اسمبلی جہاں عوامی فیصلے عوامی نماٸندگان صلاح و مشورے سے کرتے تھے۔بلوچستان کے دونوں ایوانوں میں پاکستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے کو بالکل ہی مسترد کردیا گیا تھا۔
ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کا بلوچ سرزمین پر قبضہ کسی بھی صورت جاٸز نہیں بلکہ ایک عالمی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
آج ریاست نہ صرف بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے بلکہ سندھی,پشتون اور دیگر مظلوم اقوام کے حقوق کو بھی سلب کرنے میں پیش پیش ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ غلامی انسانی روح کو بھی اسیر کردیتی ہے جس کے خلاف جدوجہد ہی ہمیں جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط کرسکتی ہیں۔
بلوچ اور دیگر مظلوم اقوام کے نوجوانوں کو چاہیٸے کہ وہ جذباتی اور کھوکھلے نعروں کے بجاٸے سیاست میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں کیونکہ حقیقت پسندانہ رویہ ہی ہمیں ماضی کی غلطیوں سے بچاسکتا ہے اور آج اکیسویں صدی ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو موجودہ حالات میں اصولوں کے بجاٸے طریقہ کار کے حوالے سے جانچ کرکے آگے بڑھنے کی جدوجہد کریں۔