چهارشنبه, نوومبر 27, 2024
Homeخبریںملازمین اتحاد کا اپنے16 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کیلئے احتجاج میں شدت...

ملازمین اتحاد کا اپنے16 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کیلئے احتجاج میں شدت تیسرے روز بھی جاری

 

کوئٹہ (ہمگام نیوز) آمدہ اطلاعات کے مطابق محکمہ جات ملازمین اتحاد بلوچستان کا ہاکی چوک میں اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا تیسرے روز میں داخل ہوگیا ہے تاحال حکومت کے ساتھ ملازمین کی مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکی۔

ملازمین نے 16 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے جس میں سرفہرست تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کا مطالبہ ہے جسے حکام قابل عمل نہیں سمجھتے۔

ملازمین کے احتجاج کے دوران بلوچستان کے مختلف اضلاع میں سرکاری دفاتر کی تالہ بندی کا عمل شروع ہوچکا ہے اور ملازمین دفاتر بند کرکے دھرنے میں شرکت کررہے ہیں۔

شال کے ہاکی چوک میں آج کے دھرنے میں سول سیکرٹریٹ اسٹاف ایسوسی ایشن نے سیکرٹریٹ کو بند کرکے وفد کی صورت دھرنے میں شرکت کی۔

ملازمین اس سے قبل قابض پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی احتجاج کرچکے ہیں جہاں اسلام آباد کی حکومت ان کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ منظور کیا تھا لیکن بلوچستان میں آئی ایس آئی کی حمایت یافتہ حکومت کا موقف ہے کہ وہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کرسکتی۔

بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے دھرنے میں مختلف محکموں کے ملازمین اپنی اپنی تنظیم کی طرف سے شریک ہیں اور منظم طریقے سے پرامن احتجاج کیا جارہا ہے۔

احتجاجی دھرنے کے تیسرے روز ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے گورنمنٹ ٹیچر ایسوسی ایشن بلوچستان کے صدر حبیب مردانزھی نے کہا آج کے دن دھرنے میں ملازمین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ہے کہ جن کے لیے مزید پنڈال لگانے کی ضرورت ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے کہ ملازمین اپنے حق کے لیے متحد ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستانی ایجنسیوں نے جام کمال کو رپورٹ دی ہے کہ ملازمین کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے وہ کل رات 8 بجے اسلام آباد چلا گیا ہے۔

انھوں نے حکومتی کمیٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا حکومت نے ہمارے ساتھ مذاکرات کے لیے جو کمیٹی بنائی ہے اس میں ایسا کوئی شخص نہیں جو ہم سے مذاکرات کرسکے۔

انھوں نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ ہم چار بجے یہاں سے نکل کر اسمبلی کی طرف مارچ کریں تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس بات کا فیصلہ اجلاس میں کیا جائے گا۔

انھوں نے مقررین سے اپیل کی کہ ہماری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں اور نہ ہی جام کمال سے کوئی ذاتی عناد ہے اس لیے تقاریر میں مناسب الفاظ استعمال کی جائیں اور ان کے باپ دادا کا نام نہ لیا جائے۔ ہمارا مخاطب وزیر اعلی کی کرسی ہے کسی کی ذات ہرگز نہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز