گوادر(ہمگام نیوز) اطلاعات کے مطابق پاکستان کے زیر قبضہ مقبوضہ بلوچستان کی تقسیم کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں اور پاکستانی ریاست چائنا کی قبضہ کو مستحکم کرنے کیلئے بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو بلوچستان سے کاٹ کر براہ راست ان کو پنجابی فوج کے تصرف میں رکھنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہوچکی ہے۔
قبل ازیں بلوچستان کے ان علاقوں کے لیے مسلسل پاکستانی فوج کی جانب سے اپنے پرودرہ میڈیا میں “جنوبی بلوچستان” کی اصطلاح متعارف کروائی گئی اور ایک نام نہاد ترقیاتی پیکج کا بھی اعلان کیا گیا جبکہ اس پر بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور مختلف طبقہ ہائے فکر نے اعتراض کیا تو کہا گیا کہ بلوچستان کی تقسیم کا کوئی ارادہ نہیں لیکن درپردہ اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام جاری رکھا گیا۔
اس سے قبل ایسے منصوبے سامنے آچکے ہیں کہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو بلوچستان سے کاٹ کر براہ راست اسلام آباد کے زیرانتظام رکھا جائے سابق فوجی آمر مشرف کے دور حکومت میں عملی طور پر گوادر کے انتظامات سیکورٹی کے نام پر ایک چیف سیکورٹی آفیسر چلاتا تھا جو ایک فوجی اہلکار تھا اور براہ راست اسلام آباد سے احکامات لیتا تھا۔
بعد ازاں پیپلزپارٹی کی دور حکومت میں بلوچستان کے سیاسی نمائندوں نے اسلام آباد سرکار کی نیت کو بھانپتے ہوئے گوادر کو بلوچستان کا سرمائی دارالحکومت قرار دیا۔
نواب اسلم رئیسانی نے بطور وزیر اعلی کروڑوں روپوں کی لاگت سے سول سیکریٹریٹ کے لیے دو نئی عمارتیں بھی تعمیر کروائی تھیں اور گوادر پورٹ اتھارٹی کے آفس بھی کرایہ پر حاصل کیا گیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس منصوبے پر عمل نہیں کیا جاسکا۔
یاد رہے نواب اسلم رئیسانی کے دور میں بلوچستان کی صوبائی حکومت نے گوادر کو سرمائی دارالحکومت قرار دیا تھا تاکہ گوادر میں ہونے والی ترقیاتی سرگرمیوں میں بلوچستان کی مرکزی اہمیت برقرار رہے اور مرکزی حکومت ان معاملات کو براہ راست کنٹرول میں رکھ سکے۔ لیکن اب جو منصوبہ رو بہ عمل ہے یہ واضح طور پر بلوچستان کی واضع تقسیم کا منصوبہ نظر آرہا ہے اس کے تحت بلوچستان میں بیک وقت دو سول سیکرٹریٹ اور بیک وقت دو دارالحکومتیں ہوں گی جس سے ایک نئی سازش کی بو آرہی ہے۔
انھوں نے گوادر پورٹ اتھارٹی کے ریسٹ ہاؤس کو سول سیکریٹریٹ کا درجہ دیا گیا بلوچستان حکومت اور گوادر پورٹ اتھارٹی کے مابین ایک کرایہ کے قرار داد پر دستخط ہوا جس کی روح سے جی پی اے کو ماہانہ لاکھوں روپے کا کرایہ ملے گا۔
صحافتی حلقوں کے تجزیہ کار یہی بتا رہے ہے کہ بلوچستان کو لوٹنے اور ان کے وسائل پر تصرف کے لیے ہمیشہ سازشیں ہوتی رہتی ہیں اور یہ بھی اسی سلسلے کی کڑی لگتی ہے اس سے نہ کوئی ترقی ہوگی نہ یہ کوئی عوامی اور سیاسی مطالبہ ہے نہ ہی کبھی یہ ضرورت محسوس کی گئی اس کے باوجود یہ سب کرنے کی کیا وجہ ہے ایسے میں کہ بلوچستان میں پہلے سے ہی ملازمین اپنے تنخواہوں کے لیے احتجاج کررہے ہیں، زمیندار ہڑتال کی کال دے چکے ہیں، نوجوان ملازمتیں چاہتے ہیں بیک وقت دو دارالحکومتوں کے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے ؟ اس لیے اسے سیاسی حلقے کوئی انتظامیہ فیصلہ نہیں بلکہ ایک سازش سمجھ رہے ہیں۔خصوصا ایسے حالات میں جہاں ریاست کے لیئے معاشی مسائل گھمبیر شکل اختیار کرچکے ہیں اور ان کیلئے کرنٹ اکاونٹ کو منیج کرنا سب سے بڑی چیلنج بن چکاہے۔