جمعه, نوومبر 29, 2024
Homeخبریںایک بار جب ہم متحد ہوئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت...

ایک بار جب ہم متحد ہوئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں تقسیم نہیں کرسکتی! حیربیارمری

لندن (ہمگام نیوز) بلوچ محب وطن رہنما واجہ حیر بیار مری نے سوشل میڈیا کے مائیکرو بلاگنگ سائیٹ فیس بک میں اپنے آفیشل اکاؤنٹ پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین اور ایران نے 27 مارچ 2021 کو 25 سالہ اسٹریٹجک تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

جس میں چین ایران میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔جس کے بعد چینی ریاست کو ایرانی معیشت کے تمام شعبوں تک رسائی حاصل ہوگی۔ جہاں چین کو ایران سے سستا تیل ملے گا جسے ایرانی ریاست نے الحواز عربستان سے لوٹا لیا ہے۔ انھیں بلوچستان کی بندرگاہوں تک رسائی حاصل ہوگی اور چین آبنائے ہرمز پر تسلط قائم کرنے کے لئے جزیروں اور اسٹریٹجک اراضی کو بھی لیز پر لے سکے گا۔

 ایرانی ملا رجیم اور چینی معاہدے کو چین کے اسٹریٹجک بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کی توسیع قرار دیتے ہیں۔چین نے پاکستان کے ساتھ بھی اسی طرح کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں ،اور وہ بلوچستان کے اسٹریٹجک لوکیشن گوادر بندرگاہ کو کنٹرول کرنے اور جزیرہ نما جیونی پر بھی ایک فوجی اڈہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

 دوسری طرف ہندوستان نے چابہار اور کچھ دیگر منصوبوں میں چند ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ چابہار بلوچ کی سرزمین ہے جو ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے ساحلی پٹی پر واقع ہے۔ ہندوستان آئی او بی کے ایک علاقے پر توجہ دے رہا ہے اور یہ سوچ رہا ہے کہ وہ ان کے مفادات کا تحفظ کرسکے گا اور اس کے ذریعے ہندوستانی حکومت یہ سوچتی ہے کہ اس خطے میں ان کا اثر و رسوخ ہوگا۔چین اور ایران کے مابین حالیہ معاہدوں کی وجہ سے پورے ایران پر چین کا زبردست غلبہ ہوگا۔

جب چین ایران کی ہر چیز کو معاشی طور پر کنٹرول کرے گا تو کیا ہندوستان محض پورٹ اور ریلوے ٹریک میں سرمایہ کاری کرکے اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے گا؟

بلوچ قوم دوست رہنما واجہ حیر بیارمری نے اپنے جاری کردہ بیان میں مزید کہا کہ ہمارے دشمن معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے باوجود ہمیشہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔

ایرانی ملا اور پاکستان کے پنجابی فوج یمن ، لبنان ، عراق اور شام میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جن ممالک کو ہمارے اتحادی سمجھا جاتا ہے ، معاشی دیوتا ہونے کے باوجود ان کی حکومتوں کے پاس اپنے قومی مفاد کو محفوظ بنانے یا ہمارے باہمی طویل مدتی مفاد کو سمجھنے کے لئے طویل مدتی وژن ، عزم اور حکمت عملی کا فقدان ہے۔

 ایران اور پاکستان بلوچستان پر قابض ہیں وہ 20 ویں صدی کے اوائل سے ہی نسلی صفائی اور بلوچ قوم کی نسل کشی کا ارتکاب کر رہی ہیں۔

جس کی حالیہ مثال ساراوان قتل عام ہے 22 فروری کو ایران کے اسلامی پاسداران انقلاب کی فورسز نے ساروان کے شمیسر علاقے میں تیل کے بلوچ تاجروں پر فائرنگ کی اور 40 معصوم بلوچوں کا قتل عام کیا۔ایرانی افواج کئی سالوں سے بلوچستان جنوبی آذربائیجان ، عربستان الاحواز اور کردستان میں ہزاروں افراد کی قتل عام کرچکی ہیں ۔

 دسمبر 2020 کے وسط سے لے کر فروری 2021 کے اوائل تک ایرانی ریاست نے اکیس بلوچوں کو ماورائے عدالت قتل کیا۔

 سنہ2016 میں ایران کے نائب صدر برائے خواتین و خاندانی امور شاہندوخت مولاوردی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے ایران کے زیر قبضہ بلوچستان کے شہر زاہدان کے ایک گاؤں میں انہوں نے تمام بالغ مردوں کو پھانسی دی تھی جہاں ایک بالغ مرد کو بھی نہیں بخشا گیا تھا۔

انسانی حقوق کے گروپس کے مطابق ایرانی مقبوضہ بلوچستان (آئی او بی)ایران کی آبادی کا 3.5فیصد آبادی ہے لیکن اس میں پھانسی پانے والوں کا 7.5 فیصد ریاست کے ہاتھوں قتل کیئے جاچکے ہیں ۔ ایران میں بلوچ فرزندوں کو پھانسی دینے کی شرح انھیں سب سے زیادہ درپیش ہے اور معدنی دولت سے مالا مال دولت مند ممالک میں سے ایک ہونے کے باوجود انہیں منظم طور پر دنیا کے غریب ترین افراد میں رکھا گیا ہے جس کی شرح خوانندگی اور متوقع شرح زندگی سب سے کم ہے۔

 ایران نے جدید تاریخ کی سب سے طویل دیوار تعمیر کرکے گولڈسمڈ لائن کے ساتھ بلوچ قوم اور بلوچستان کو تقسیم کرنے میں لگ بھگ ایک ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔بلوچستان وال 700 کلو میٹر لمبی ہے جو بدنام زمانہ برلن وال سے بھی 5 گنا زیادہ لمبا ہے۔ دوسری طرف پاکستان اپنے نوآبادیاتی ڈیزائن کو آگے بڑھانے کے لئے گولڈسمڈ لائن کو باڑ لگارہا ہے۔ اس کے علاوہ ایران اور پاکستان نے بلوچ سرزمین کا حجم کم کرنے کے لئے بلوچستان کو اندرونی طور پر متعدد انتظامی حدود میں تقسیم کردیا ہے اور اب دونوں قابض ریاستیں بلوچستان کو مزید تقسیم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں کیونکہ ان کا ہدف کسی طریقے سے بھی بلوچستان کے نام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔

 کچھ مہینے قبل پاکستان کے پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے گوادر شہر کو باڑ لگا کے باقی ماندہ بلوچستان سے منقطع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ، لیکن جب بلوچ عوام نے ان منصوبوں کی مخالفت کی تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔ میرے معلومات کے مطابق پاکستان کا یہی منصوبہ ہے کہ وہ بلوچستان کے پورے ساحلی پٹی کو تین مراحل میں باڑ لگا کر تقسیم کرنا چاہتی ہیں ۔پہلے مرحلے میں وہ گوادر شہر پر باڑ لگانا چاہتے ہیں اور پھر اس منصوبے کو گوادر کے پورے ضلع تک پھیلائیں گے۔تیسرے اور آخری مرحلے میں یہ باقی ساحل سے سارا ساحلی پٹی منقطع کرنا چاہتے ہیں۔

 مقبوضہ بلوچستان کے مشرقی حصے کو جنوبی بلوچستان کا نام دیکر پکارنا اور گوادر کو اس کا دارالحکومت قرار دینا چین کے بڑے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ایک اور چال ہے۔

 ہم نے بحیثیت قوم گولڈسمڈ اور ڈیورنڈ لائن کے تقسیم کو کبھی بھی قبول نہیں کیا۔ہم ایران اور پاکستان کے ذریعے بلوچستان کی تقسیم کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ ہم مشرقی اور مغربی جرمنی یا شمالی اور جنوبی کوریا کی طرح بلوچستان کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔یہاں کوئی شمالی، جنوبی ، مشرقی یا مغربی بلوچستان نہیں ہے ، بلوچستان ایک سرزمین ہے یہ ایک ملک ہے۔ پاکستان ، چین اور ایران نے بلوچ قوم کے خلاف اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔

یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم بلوچ قوم کو متحد کریں ایک بار جب ہم متحد ہوئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں تقسیم نہیں کرسکتی!

یہ بھی پڑھیں

فیچرز