واشنگٹن(ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے دس سال بعد، امریکہ کے نیوی سیلز آج کل چین اور روس سے درپیش عالمی خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنی گوریلا جنگ کی صلاحیتوں، قابلیت اور قیادت کو بہتر بنانے کی ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہے ہیں۔
اس نئے منصوبے کے تحت نیوی سیل پلاٹونوں کی تعداد میں تیس فیصد کمی کی جائے گی، لیکن ان کے سائز میں اضافہ کیا جائےگا، تاکہ انکو مزید خطرناک بنا کر پانیوں کے اوپر اور زیر ِآب دشمنوں کے خلاف زیادہ موثر بنایا جائے۔
نیوی سیلز کے چوٹی کے کمانڈر، ریئر ایڈمِرل ایچ وائے مین ہوورڈ 111 نے، خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ امریکی بحریہ کی سپیشل فورسز کی ساری توجہ دہشت گردی کے انسداد کی سرگرمیوں پر مرکوز رہی ہے، لیکن اب اِنہیں ان کارروائیوں سے ہٹ کر اپنی تیاری کرنا ہوگی۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران، زیادہ تر سیلز عراق کے صحراؤں اور افغانستان کے پہاڑوں میں لڑتے رہے ہیں۔ لیکن اب ان کی پوری توجہ سمندری کارروائیوں پر مرکوز رہے گی۔
یہ فیصلہ، امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی وسیع تر حکمت عملی کا عکاس ہے جس میں چین اور روس اب ترجیحات میں شامل ہو گئے ہیں۔ چین اور روس دنیا بھر میں اپنے اثر و نفوذ کو وسعت دینے کے لیے اپنی فوج میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ امریکی دفاع کے اہلکاروں کے نزدیک دو عشروں تک دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ سے وسائل کم ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے روس اور چین کے سامنے امریکہ کی اہلیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
تاہم، نیول سپیشل وارفیئر کمان کے سربراہ، ایڈمرل ہوورڈ کہتے ہیں کہ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں سے بھی فوائد حاصل ہوئے، جس سے سیلز کو اپنی انٹیلی جنس نیٹ ورک قائم کرنے اور اہداف کو تلاش کر کے نشانہ بنانے کی صلاحیتوں میں مزید بہتری لانے کا موقع ملا۔
اس کے نتیجے میں ایڈمرل ہوورڈ سیل پلاٹونوں کے عملے میں اضافہ کر کے ان کی سائبر اور الیکٹرونک جنگ اور ریموٹ کنٹرول نظاموں میں ان کی صلاحیتوں کو بہتر بنایا جائے گا۔
چیف آف نیول آپریشنز، ایڈمِرل مائیک گلڈے کا کہنا ہے کہ بحریہ کا مقصد سیلز کو سمندروں میں بحریہ کی کارروائیوں میں بہتر طور پر ضم کرنا ہے۔