گوریلا چالوں سے مراد وہ عملی ذرائع ہیں جو جنگی مقاصد کے حصول کے لئے اختیار کئے جائیں۔مقرر شدہ مقاصد کے مقابلے میں طریقہ کار یا چالوں میں ہمیشہ لچک ہوتی ہے ۔حالانکہ کچھ میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوتی ہے لیکن کچھ چالیں دورانِ جنگ ہر نئی صورتحال کے مطابق بدلتی رہتی ہیں۔گوریلے کا بہترین طریقہ کار اس کی پُھرتی ہے۔انتہائی تیزی کے ساتھ اپنی جگہ تبدیل کرتے رہنے میں ہی اس کی قوت اور کامیابی ہے۔ اس طرح وہ ایک کام کے دائرہ یا معرکے کی جگہ سے انتہائی تیزی سے غائب ہوجاتا ہے۔یوں وہ اپنے محاذ بدلتا رہتا ہے اور اپنے آپ کو گھیرے میں آنے سے بچاتارہتا ہے،بلکہ کبھی کبھار تو وہ دشمن کو اپنے نرغے میں لے آتا ہے۔یاد رہنا چاہئے کہ نرغے میں آنا ایک چھاپہ مار کے لئے موت کے منہ میں آنے کے برابر ہے۔ دشمن کو نرغے میں لانے کی کئی شکلیں ہیں۔ایک تو یہ ہے کہ دشمن ایک چھوٹے چھاپہ مار دستے کو گھیر لے لیکن بعد میں چھاپہ ماروں کی ایک بہت بڑی تعداد انتہائی چابکدستی کے ساتھ دشمن کو ایک اور نرغے میں لے لے یا پھر یہ کہ دشمن کو اپنی ایک مضبوط جعلی پوزیشن پر حملہ کرنے کی ترغیب دی جائے ،پھر اچانک اس پر حملہ کر کے اس کے پر خچے اڑا دیے جائیں،اور اس کے اسلحہ کی رسد پر قبضہ کر لیا جائے۔ دشمن کو نرغے میں لانے کی ایک شکل یہ بھی ہے؛جس کا مقصد دشمن کی بڑی تعداد کو تنگ کرنا اور جھکانا ہوتا ہے ۔۔۔چھاپہ مار دشمن کے ایک بڑے گروہ کا گھیراؤ کر لیتے ہیں ۔پانچ پانچ یا چھ چھ گوریلا ہر طرف مقرر کئے جاتے ہیں تاکہ ان کا نرغے میں آنے کا امکان نہ رہے۔پھر ایک طرف سے چھاپہ مار فائر کھول دیتے ہیں ۔دشمن افراتفری کی حالت میں اس طرفٖ بڑھتا ہے،پھر اس طرح ہر طرف سے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔دشمن خوفزدہ ہوکر بارود جلاتا رہتا ہے اور بالآخر تھک ہار کر حوصلہ ہار بیٹھتا ہے لیکن چھاپہ مار اطمینان کے ساتھ اپنی کارروائی جا ری رکھتے ہیں۔اس تمام کارروائی میں چھاپہ ماروں کے درمیان بصری رابطہ ضروری ہے۔اس قسم کی کارروائی رات کے وقت ہو سکتی ہے۔بلکہ یہ کارروائی رات کے وقت دشمن کے خلاف اور بھی شدت سے ہو سکتی ہے ۔ مجموعی طور پر چھاپہ ماروں کی انقلابی سرگرمیوں کے لئے رات کا وقت موزوں تر ہوتا ہے کیونکہ چھاپہ مار اندھیرے میں غیرمانوس علاقوں یا دشمن کی چوکیوں کے قریب اپنے آپ کو نسبتاََ زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ چھاپہ ماروں کی تعداد چونکہ دشمن کے مقابلے میں کم ہوتی ہے لہٰذااچانک حملہ کرنا ضروری ہے۔ ان حملوں میں چھاپہ مار اپنے دشمن کو شدید جانی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر دشمن اور چھاپہ ماروں کے جانی نقصان میں تناسب کے لحاظ سے زیادہ فرق نہیں ہوگا تو تعداد میں کم ہونے کے باعث چھاپہ مار، دشمن کے ختم ہونے سے پہلے خود ہی ختم ہو جائیں گے۔جنگ کے میدان میں گوریلا کے لئے اسلحہ بارود سب سے زیادہ قیمتی چیزیں ہیں ۔اس لئے ضروری ہے کہ چھاپہ مار اپنے کسی مردہ ساتھی کا تمام اسلحہ بارود اٹھائے بغیر نہ چھوڑیں۔اسی طرح چھاپہ مار کو اسلحہ بارود کے استعمال میں بھی انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہئے۔کسی بھی معرکہ میں ایک چھاپہ مار اور ایک عام سپاہی کے درمیان واضح پہچان یہ ہے کہ عام سپاہی جہاں دھڑا دھڑ گولیاں چلاتا ہے ، وہاں چھاپہ مار گولہ بارود کو یونہی ضائع کرنے کی بجائے اپنے دشمن کو نشانہ بناتا ہے ۔ایک مرتبہ ہمارے ایک چھاپہ مار کو دشمن کی پیش قدمی روکنے کے لئے مسلسل پانچ منٹ تک مشین گن سے فائرنگ کرنا پڑی۔ہمارے دوسرے چھاپہ مار ساتھیوں کو اس لگاتار فائرنگ کے باعث سخت پریشانی ہوئی کیونکہ فائرنگ کا یہ انداز ہمارے انداز سے بالکل منفرد تھااور ہمارے چھاپہ مار ساتھیوں نے یہ سمجھا کہ اس چوکی پر دشمن کا قبضہ ہو چکا ہے ۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ موقع کی نزاکت اور اہمیت کے لحاظ سے محتاط فائرنگ کا قاعدہ توڑا گیا تھا۔ چھاپہ مار کی اہم خاصیت ہے؛ اس کی اپنی صلاحیت اور استعداد اسے عام فوجی سے الگ کرتی ہے،کیونکہ چھاپہ مار اپنی ذات میں ایک لیڈر ہوتا ہے اور موقع کی مناسبت سے اپنے طریقہ کار میں نت نئی تبدیلیاں کرتا رہتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں عام فوجی پوری فوج کے ضوابط میں جکڑا ہوتا ہے اور کسی معرکہ میں وہ انفرادی ذمہ داری کے بنیادی طریقہ کار میں تبدیلیاں نہیں کر سکتا۔ چھاپہ ماروں پر اہم پابندی اور ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ ٹھکانہ کی حفاظت کے لئے موزوں وقت اور درست حربے منتخب کریں ۔مثلاََ اگر پیش قدمی کرتے وقت دشمن کو دشوار راستوں سے گزرنا پڑے تو اس پیش قدمی کو دو تین چھاپہ مار بڑی آسانی سے روک سکتے ہیں۔چھاپہ ماروں کے حملے کا طریقہ بھی مختلف ہوتا ہے۔یعنی اچانک،شدید اور بے باک حملہ۔اور اس کے بعد بظاہر خاموشی اور سکون۔ تاکہ دشمن مطمئن ہو کر بیٹھ جائے اور پھر کسی اور طرف سے اس پر اچانک شدید حملہ کیا جائے۔یہ حملہ جتنا شدید اور اچانک ہو گا،اتنا ہی کامیاب ہو گا۔ سبوتاژ انقلابی جنگ کا ایک اہم طریقہ ہے،لیکن اس طریقے کو دہشت گردی سے نہیں ملانا چاہئے۔ عام لوگوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائی نہ صرف غلط طریقہ ہے بلکہ اس کے نتائج بھی خراب اور الٹ نکلتے ہیں۔لیکن کسی اہم عوام دشمن اور چھاپہ مار دشمن کو مارنا کوئی عیب نہیں ہے۔ دہشت گردی سے متعلق ایک اور بات پر غور کرنا بھی ضروری ہے اور یہ مسئلہ اچھی خاصی اختلافِ رائے کا موجب ہے کہ دہشت گردی کے سبب طالم حکومت اکثر سختی کرنا شروع کر دیتی ہے،اور اسی مناسبت سے عوامی روابط کے امکانات اور وسائل کم ہوتے ہیں۔ ایک لحاظ سے یہ درست بھی ہے، لیکن عموماََ جابر حکومت کی عام زندگی پر جکڑ اتنی سخت ہوتی ہے کہ اس کے اسلحہ استعمال کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں رہتا۔ بہرحال یہ خطرہ محتاط طریقے سے ٹالا جا سکتا ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ سبوتاژ کے طریقے اگر سوچ سمجھ کے اختیار کئے جائیں تو ان سے فائدہ ضرور ہوتا ہے ۔لیکن اس بات کی احتیاط لازم ہے کہ سبوتاژ کے ذریعے کارخانے وغیرہ تباہ کر کے عوام کو خوامخواہ بے روزگاری کی طرف نہ دھکیلا جائے۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کچھ کارخانوں کو اڑانے سے سرکاری نظام پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے ،لیکن اگر اس کے برعکس کسی بجلی گھر کو اڑا دیا جائے تو اس کا نتیجہ زیادہ فائدہ مند ہو گا۔ ایئر فورس دشمن کی جنگ کا مقبول اور زیادہ استعمال ہونے والا ذریعہ جنگ ہوتا ہے۔ لیکن پہاڑوں میں دُور دُور تک بکھرے چھاپہ ماروں کے خلاف ایئر فورس موثر نہیں ہوتا،لیکن میدانی علاقوں میں دن کے وقت منظم جنگ میں وہ زیادہ ہلاکت خیز ہوتا ہے۔دشمن کی سب سے بڑی کمزوری اہم شاہراہیں اور ریلوے لائنیں ہوتی ہیں۔تمام شاہراہوں اور ریلوے لائنوں کی حفاظت کرنا دشمن کے لئے ممکن نہیں ہوتا اور اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اہم شاہراہوں اور ریلوے لائنوں کو مختلف جگہوں سے تباہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کام کے لئے بارود وغیرہ مختلف ذرائع سے حاصل کیا جا سکتا ہے یا دشمن کے ان گولوں اور بموں سے نکال کر حاصل کیا جا سکتا ہے جو پھٹ نہ سکے ہوں۔یا پھر ایسا بارود مصنوعی طور پر بھی بنایا جا سکتا ہے۔ ہم کیوبا میں گولہ بارود خود بناتے تھے ااور اس کے استعمال کے نت نئے طریقے یلاش کر لیا کرتے تھے۔نیز اسی گولہ بارود کو سڑکوں کو توڑنے، دشمن کی اکا دکا فوجی گاڑیوں کو اڑانے اور ان میں سوار دشمن کو تباہ کرنے میں بڑی کامیابی سے استعمال کیا جاتا تھا۔ہوتا یہ تھا کہ اہم شاہراہوں پر دشمن کو اس طرح اچانک حملے کا نشانہ بنایا جاتا تھا کہ اسے جوابی کارروائی کا موقع ہی نہ ملتا تھا۔اس طرح کے حملوں میں نت نئے طریقے دریافت کئے جا سکتے ہیں۔ الجزائر میں فرنچ سامراجی فوجیوں کے خلاف فاصلاتی کنٹرول والی سرنگیں استعمال کی جاتی تھیں ۔ ان سرنگوں کو دور سے ہی بجلی کے کرنٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا تھا۔اہم سڑکوں کو توڑ کر اس طرح دشمن پر چھاپہ مار کو کارروائیوں کے ذریعے اسلحہ اور دیگر ضروری سامان چھاپہ مار اٹھا لیا کرتے ہیں۔یہ درست ہے کہ ان حملوں کے بعد دشمن اِکا دُکا گاڑیوں کی نقل و حرکت کے بجائے قافلہ کی نقل و حرکت کا طریقہ اختیار کرے گا۔چھاپہ مار اس کا توڑ اس طرح کر سکتے ہیں کہ مکمل تیاری کے ساتھ موزوں جگہ پر چھپ کر اچانک حملہ کر کے پورے قافلے کو حصوں میں تقسیم کر دیں اور ایک جگہ جم کر لگاتار فائر کریں۔دشمن کی مزید کمک پہنچنے اور اس کے بھاگ جانے کے تمام راستوں پہ پہرہ بٹھا دیں۔مقامی آبادی کے ساتھ بھرپور رابطہ قائم کریں تاکہ وہ راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔زخمیوں کا خیال کریں اور ٹرانسپورٹ کا بندوبست کریں۔اگر اس مہم میں فہم اور احتیاط سے کام لیا جائے تو چھاپہ ماروں کو بڑا فائدہ ہوگا۔انہیں بہت سارا گولہ بارود اور اسلحہ ہاتھ آئے گا۔ گوریلا جنگ کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ مقامی آبادی اور دشمن کے ساتھ گوریلوں کا برتاؤ کیا ہونا چاہئے؟چھاپہ ماروں کو غداروں اور دشمن کے ایجنٹوں کے ساتھ بالکل بھی رعایت نہیں برتنی چاہئے۔ لیکن ان لوگوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ اختیار کرنا چاہئے جن بے چاروں کو دشمن نے چھاپہ ماروں اور انقلابی قوتوں کے خلاف لڑنے پر مجبور کیا ہو۔اگر چھاپہ ماروں کے پاس اپنا کوئی آزاد اور محفوظ علاقہ نہیں ہے تو پھر دشمن کو قیدی بنانا لا یعنی ہے۔ ایسے حالات میں زخمیوں کی حتیٰ المقدور مدد کر کے انہیں چھوڑ دینا چاہئے۔چھاپہ ماروں کا مقامی آبادی کے ساتھ رویہ عزت اور احترام کا ہونا چاہئے۔ اور مقامی آبادی کے ذہن و قلو ب میں چھاپہ ماروں کی بلند اخلاقی کا سکہ جما ہوا ہونا چاہئے۔ مقامی لوگوں میں سے کسی پر بھی اس وقت تک گولی نہیں چلانی چاہئے جب تک کسی کے خلاف مکمل تحقیقات نہ ہو چکی ہو اور مجبوراََ اسے گولی مارنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ بچا ہو۔