کویت (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق امریکا کے وزیرخارجہ انٹونی بلینکن نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات غیر معیّنہ مدت کے لیے جاری نہیں رہ سکتے۔البتہ واشنگٹن مذاکرات کوجاری رکھنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
انٹونی بلینکن نے جمعرات کو کویت کے دورے کے موقع پر کہا ہے کہ ہم سفارت کاری کے لیے پُرعزم ہیں لیکن یہ عمل غیرمعینہ عرصے کے لیے جاری نہیں رہ سکتا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ایران کیا کرنے کوتیار ہے اورکیا نہیں کرنا چاہتا ہے۔ہم ویانا جانے اور مذاکرات کو جاری رکھنے کے لیے مکمل طور پرتیار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت بال ایران کے کورٹ میں ہے۔ ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان اپریل سے ویانا میں 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کی بحالی سے متعلق امور پر مذاکرات کے چھے دور ہوچکے ہیں۔تاہم ابھی تک ان کے درمیان امریکا کی جوہری سمجھوتے میں واپسی کے لیے مجوزہ اقدامات اور ایران کی جانب سے سمجھوتے کی مکمل پاسداری سے متعلق اختلافی امور طے نہیں ہوسکے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2018ء میں ایران سے طے شدہ جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پر علیحدگی کا اعلان کردیا تھا اور اس کے خلاف اسی سال نومبر میں سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھی۔ان سے ایرانی معیشت زبوں حال ہوچکی ہے۔
امریکا کی موجودہ بائیڈن انتظامیہ ایران کے ساتھ اب ایک نظرثاتی شدہ جامع سمجھوتے پر زور دے رہی ہے جس کے تحت اس کے جوہری پروگرام کے علاوہ بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام کی سرگرمیوں پر بھی قدغنیں عائد کی جائیں گی۔تاہم وہ اس کی خطے کے ممالک میں گماشتہ تنظیموں کے ذریعے مداخلت کو روک لگانے پر زیادہ زور نہیں دے رہی ہے۔
ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے مذاکرات کاروں نے 20 جون کو بات چیت غیر معیّنہ مدت کے لیے ملتوی کردی تھی۔ایرانی حکام کے مطابق نومنتخب صدر ابراہیم رئیسی کے اگست میں اقتدار کے سنبھالنے تک ویانا میں مذاکرات کی بحالی اور کسی ڈیل کا امکان نہیں ہے۔
ابراہیم رئیسی قدامت پسند اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریب سمجھے جاتے ہیں لیکن وہ جوہری مذاکرات کی حمایت کا اظہار کرچکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایران امریکا کی پابندیوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔
ایران کا قدامت پسند کیمپ امریکا پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں اور وہ اس کے ملک مخالف اقدامات کی بنا پر اس پرعدم اعتماد کا اظہار کرتا رہتا ہے۔اس نے صدر حسن روحانی کو 2015ء میں امریکا سمیت چھے عالمی طاقتوں سے سمجھوتا طے کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
ابراہیم رئیسی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی قیادت میں ایران کی پالیسیوں میں کسی جوہری تبدیلی کا امکان نہیں کیونکہ وہی تمام اہم پالیسیوں پرحتمی رائے رکھتے ہیں۔ایرانی قائدین جوہری سمجھوتے کی بحالی سے قبل ایران عائد کردہ امریکا کی تمام پابندیوں کے خاتمے پر زوردے رہے ہیں۔