اسلام آباد(ہمگام نیوز) امریکی حکومت کے تعاون سے چلائے جانے والے ایک منصوبے کی مدد سے گزشتہ دو سالوں کے دوران بلوچستان کے ضلع مستونگ میں شہتوت کے کاشتکاروں کی آمدن میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ یہ منصوبہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے تحت چلایا جا رہا ہے۔
دو سال قبل تک ضلع مستونگ میں پیدا ہونے والے خشک شہتوت کی قیمت دو سے تین ہزار روپے فی بوری تھی، مگر یہ منصوبہ شروع ہونے کے بعد یہی شہتوت 12 سے 16 ہزار روپے فی بوری لاہور، کراچی، اسلام آباد اور سندھ کے شہر سہون شریف میں فروخت کیا گیا۔
مستونگ میں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے ایک عہدیدار عبد الحمید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پہلے شہتوت کی مارکیٹنگ نہ ہونے وجہ سے اس کی مقامی فروخت بہت کم تھی۔
اس سے قبل مستونگ میں شہتوت کو صرف کھیتوں اور پانی کی گزرگاہوں کے گرد لگایا جاتا یا آندھی روکنے کے لیے کاشت کیا جاتا۔ اسے ایسی فصل نہیں سمجھا جاتا تھا جسے بیچ کر منافع کمایا جا سکے اسلئے زیادہ تر شہتوت پاؤں تلے آکر ضائع ہو جاتا تھا۔
شہتوت کی فروخت میں اضافے کے لیے قائم کی گئی تاجروں کی مقامی مارکٹنگ تنظیم کے ایک عہدیدار حاجی محمد حنیف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اس پراجیکٹ سے انہیں بہت مدد ملی۔ انہوں نے بتایا کہ اس پراجیکٹ میں انہیں خشک میوہ کے معیار کی جانچ گریڈنگ، پیکنگ اور مارکیٹنگ کی تربیت دی گئی اور ملک بھر میں خشک میوے کی منڈیوں اور زرعی نمائشوں کا دورہ کروایا گیا جہاں خشک شہتوت کو متعارف کروایا جا سکتا تھا۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں تجارتی میلوں کے دوران وہان آنے والے لوگوں اور تاجروں نے شہتوت خریدنے میں بہت دلچسپی کا اظہار کیا۔
حاجی محمد حنیف نے بتایا کہ نمائش میں آنے والے کچھ لوگوں کو اس پہلے اس میوہ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ملک کے شہری علاقوں میں اس میوے کی مقبولیت بڑھنے سے اس کی طلب میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ گزشتہ سال انہوں 3,100 بوری شہتوت فروخت کیے مگر اس برس ان کا ادارہ 5,000 بوری فروخت کرنے کا ہے اور ان کے ساتھ اب 22 کاشتکار کام کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادرہ برائے خوراک کے عبدل الحمید نے بتایا کہ 2015 میں وہ ان کاشتکاروں کے ساتھ کام کرتے رہیں اور ان کی مارکیٹنگ تنظیم کو رجسٹر کروا کر دفتر قائم کرنے اور تمام کاغذات مکمل کرنے میں مدد دیں گے جس کے بعد پائیدار بنیادوں پر یہ خود اپنا کام جاری رکھ سکیں گے۔
ملک میں وسیع پیمانے پر اس قسم کے منصوبوں کی ضرورت ہے جن کے ذریعے صفائی، پیکنگ اور مارکیٹنگ جیسی نسبتاً آسان مگر اہم تبدیلیاں کر کے مقامی پیداوار کو ملک میں اور بیرونِ ملک فروخت کیا جاسکے، جس سے مقامی آبادیوں کے معیارِ زندگی اور ملکی معیشت میں نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔