دبئی ( ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے اپنے دورہ مصر سے واپسی کے فورا بعد غزہ میں حماس کے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی اویرا مینگسٹو کے خاندان سے ملاقات کی اور حماس کے زیر حراست فوجیوں اور شہریوں کی باقیات کی بازیابی کے اپنے ذاتی عزم اور کوششوں کا یقین دلایا۔ تاہم یہ وعدہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے لیے کافی نہیں تھا جنہوں نے تل ابیب حکومت پر بار ہا تنقید کی اور حکومت پرغزہ میں قید ان کے پیاروں کی رہائی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہ لینے اور ان کے ساتھ دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا۔
اس تنقید نے “حماس” کو یہ ظاہر کرنے کا موقع دیا کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی تکمیل کے لیے ایک روڈ میپ پیش کیا تھا جس میں ایک لسٹ کی صورت میں جو اس نے ثالثوں کے ذریعے اسرائیل کو بھیجا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل اپنے موقف میں لچک دکھائے تو حماس قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے۔
جبکہ ثالثوں نے روڈ میپ اسرائیل کو منتقل کر دیا ـ حماس کے ہاں اسرائیلی قیدیوں کےامور کے انچارج زاھر جبارین نے بتایا ہے کہ ان کی جماعت نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کے لیے اپنے ثالثوں کے سامنے روڈ میپ پیش کیا ہے۔ ہم نے قیدیوں کی رہائی سے متعلق اپنی تمام شرائط تفصیل کے ساتھ اپنے ثالثوں کے ذریعے تل ابیب تک پہنچا دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گیند اب ان کے کورٹ میں ہے۔
زاھر جبارین جو فلسطینی اسیران کے امور کی نگرانی کررہے ہیں نے کہا کہ اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینی بہن بھائیوں کی رہائی کا معاملہ جماعت کے ہر اجلاس میں بحث کا حصہ رہتا ہے۔ اسی وجہ سے اسیران کی رہائی حماس کی پہلی ترجیح ہے۔
یہ واضح ہے کہ اس کیس کو مکمل کرنے کی کوشش میں تیزی سے نقل و حرکت دیکھی جا رہی ہے۔ بینیٹ کے اسرائیل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار تل ابیب نے مصری ثالثوں کو آگاہ کیا کہ وہ حماس کے پیش کردہ روڈ میپ کا مطالعہ کرنے کے لیے بالواسطہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل پر بات چیت کرونا وائرس کے پھیلنے کے بعد اپریل 2020 میں شروع ہوئی جب غزہ میں حماس کے سربراہ یحییٰ السنوار نے اسرائیل کو قیدیوں کے تبادلے کے لیے انسانی بنیادوں پر کام کرنے کی پیش کش کی۔
انہوں نےاسرائیل کو تجویز دی کہ وہ اپنے قیدیوں کے بدلے میں اپنی جیلوں میں قید بزرگ اور بیمار فلسطینیوں کو رہا کردے، اس کے بدلے میں حماس بھی اپنی بعض شرائط میں نرمی کرے گی، تاہم اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے حماس کی اس پیش کش کو تسلیم کیا مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
رواں سال غزہ میں فلسطینی دھڑوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان لڑائی چھڑ گئی۔ تقریبا ڈیڑھ ہفتے تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد فریقین میں جنگ بندی ہوئی مگر اسرائیل نے غزہ کی تعمیر نو قیدیوں کی رہائی کے ساتھ مشروط کرنے کی کوشش کی۔ تاہم ثالثی کرنے والے ممالک نے اسرائیل کو غزہ کی تعمیر نو اور قیدیوں کے معاملات کو الگ الگ رکھنے پرقائل کرلیا۔
قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل “حماس” کی جانب سے ثالثوں کے ذریعے اسرائیل کو پیش کردہ تبادلے کے معاہدے کے روڈ میپ میں دو تجاویز شامل ہیں۔ زاہر جبارین کا کہنا ہے کہ تحریک ایک جامع معاہدہ چاہتی ہے۔ اس معاہدے پر ایک یا دو مراحل میں عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ اسرائیل کی تیاری پر منحصر ہے۔
معلومات کے مطابق حماس کے پیش کردہ روڈ میپ کے تحت اگراسرائیل ایک ہی مرحلے کے فریم ورک میں قیدیوں کی رہائی پر تیار ہے تو اسے ان 60 قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا جنہیں سنہ2011 کے گیلاد شالیت معاہدے میں رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ان تمام قیدیوں کا تعلق غرب اردن سے ہے۔ اس کے علاوہ اس ڈیل میں اسرائیل کو تمام خواتین قیدیوں ، بچوں اور مریضوں، عمر رسیدہ افراد کو رہا کرنا ہوگا۔ رہا ہونے والے قیدیوں کی فہرست میں وہ قیدی بھی شامل ہوں گے جن کی رہائی پر فریقین متفق ہوں۔ اس کے علاوہ طویل مدت کی قید کی سزائیں پانے والے قیدیوں کی رہائی بھی ڈیل کا حصہ ہوگی۔
اس صورت میں حماس اپنے ہاں اسرائیلی جنگی قیدیوں چاہے وہ زندہ ہیں یا مردہ انہیں ایک ساتھ واپس کرے گی۔
حماس کے پیش کردہ روڈ میپ کے تحت اگر اسرائیل معاہدے کو دو مراحل میں مکمل کرنا چاہتا ہےتو حماس بھی دو مراحل میں کام کرے گی۔ حماس کی شرائط کے مطابق پہلے مرحلے میں اسرائیل گیلاد شالیت معاہدے کےدوبارہ گرفتار 60 قیدیوں کو رہا کرےگا۔ تمام خواتین، بچوں اور بیمار قیدیوں کو رہا کرے گا۔ اس کے بدلے میں حماس اپنے ہاں قید اسرائیلیوں کے بارے میں ٹھوس معلومات فراہم کرے تاہم ان کی رہائی اسرائیل کی طرف سے معاہدے کے دوسرے مرحلے کی تکمیل پر ہوگی۔
دوسرے مرحلے میں اسرائیل کو طویل المیعاد قید کے سزا یافتہ اور اسرائیلیوں کے قتل میں ملوث ان فلسطینیوں کو رہا کرنا ہوگا جن کی رہائی پر فریقین میں اتفاق رائے طے پا چکا ہو۔ ان کی رہائی کے بعد حماس اپنے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلیوں کو رہا کرے گی۔
جبارین بتاتے ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینی اسیران کے معاملے پر “حماس” کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی پیشکش کی تھی لیکن جماعت نے اسرائیل کی تجویز مسترد کردی ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بینیٹ کا کہنا ہے کہ غزہ میں “حماس” کے زیر حراست چار قیدیوں اور لاپتہ افراد کی بازیابی ان کی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر راضی ہیں لیکن اس کے حصول کا امکان حالات پر منحصر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ان فلسطینیوں کی رہائی کی مخالفت کرتا ہوں جنہوں نے اسرائیلیوں کو قتل کیا ہے۔