کابل (ہمگام نیوز)مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق کابل کے باہر ایک چھوٹے سے ضلعی ہسپتال میں طالبان کے مقرر کردہ سپروائزر جاوید احمدی کے پاس اس جگہ کے لیے بڑے منصوبے ہیں لیکن وہاں کام کرنے والے ڈاکٹر ان سے مایوس نظر آتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جنگ کے میدانوں میں گزارنے والے 22 سالہ محمد جاوید احمدی بچپن سے ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں لیکن غربت کی وجہ سے وہ میڈیکل سکول میں داخلہ نہ لے سکے تھے۔
اگست میں افغانستان پر کنٹرول کے بعد جب طالبان کے اعلیٰ حکام نے ان سے پوچھا کہ وہ کس قسم کی ذمہ داری نبھانا چاہتے ہیں تو ان کا انتخاب شعبہ طب تھا۔
اس کے فوراً بعد کابل کے نواح میں میربچہ کوٹ ڈسٹرکٹ ہسپتال ان کی ذمہ داری بن گیا۔
ان کا کہنا تھا: ’اگر کوئی زیادہ تجربہ رکھنے والا یہ عہدہ لے سکتا ہے تو بہتر ہوگا، لیکن بدقسمتی سے اگر کسی کو یہ عہدہ مل جائے تو کچھ عرصے بعد آپ دیکھیں گے کہ وہ چور یا بدعنوان ہو جاتا ہے۔‘
احمدی اپنی ذمہ داری کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں لیکن وہ اور 20 بستروں والے اس ہسپتال میں صحت کے دیگر کارکن شاذ و نادر ہی آنکھ سے آنکھ ملا کر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔
ادویات، ایندھن اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنے والے ڈاکٹر تنخواہوں کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ احمدی کی پہلی ترجیح ہسپتال کے کوارٹرز کے اندر ایک مسجد بنانا، عملے کو صنف کے لحاظ سے الگ کرنا اور انہیں نماز پڑھنے کی ترغیب دینا ہے۔ وہ طبی کارکنوں کو بتاتے ہیں کہ باقی سب خدا کی مرضی کے مطابق ہو جائے گا۔
طالبان کے قبضے کے بعد سے میربچہ کوٹ ہستپال جیسا ڈرامہ پورے افغانستان کے صحت کے شعبے میں چل رہا ہے۔
راتوں رات اقتدار میں تبدیلی کی وجہ سے طبی کارکنوں کو ایک نئے سیٹ اپ میں ڈھلنا مشکل ہو رہا ہے۔
واشنگٹن نے طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد بین الاقوامی پابندیوں کے تحت امریکی کھاتوں میں افغان اثاثے منجمد کر دیے جس سے افغانستان کا بینکنگ سیکٹر مفلوج ہو گیا۔
بین الاقوامی مالیاتی تنظیمیں، جنہوں نے کبھی 75 فیصد ریاستی اخراجات میں مالی اعانت فراہم کی تھی، ادائیگیوں کو روک دیا جس کی وجہ سے ملک میں معاشی بحران نے جنم لیا ہے۔
صحت کا شعبہ بھی شدید متاثر ہے۔ طالبان کے نائب وزیر صحت عبدالباری عمر نے بتایا کہ ورلڈ بینک افغانستان کی 3,800 طبی سہولیات میں سے 2,330 کو فنڈز فراہم کر رہا تھا، جس میں ہیلتھ ورکرز کی تنخواہیں بھی شامل تھیں۔ تاہم سابق حکومت کے گرنے سے مہینوں پہلے ہی تنخواہوں کی ادائیگی رکی ہوئی تھی۔
’یہ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جب ہم یہاں آئے تو پیسے نہیں بچے تھے۔ عملے کے لیے کوئی تنخواہ نہیں، کھانا نہیں، ایمبولینسز اور دیگر مشینوں کے لیے ایندھن نہیں۔ ہسپتالوں کے لیے کوئی دوا نہیں۔ ہم نے قطر، بحرین، سعودی عرب، پاکستان سے کچھ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کافی نہیں۔‘
میربچہ کوٹ میں ڈاکٹروں کو پانچ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔
مایوس عملہ ایک دن میں آس پاس کے چھ اضلاع سے آئے 400 تک مریضوں کو دیکھتا ہے۔ کچھ کو عام شکایات یا دل کی بیماری ہے۔ دوسرے بیمار بچوں کو لاتے ہیں۔
یہاں کام کرنے والے ڈاکٹر گل نذر کہتے ہیں: ’ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اگر ہم یہاں نہیں آنا چاہتے تو ہمارے لیے کوئی اور ملازمت نہیں۔ اور اگر کوئی اور کام مل بھی جائے تو تنخواہ نہیں ملتی لہٰذا یہیں رہنا بہتر ہے۔‘
چھوٹا قد اور سر پر کالی پگڑی پہنے احمدی ہر صبح یہاں کا چکر لگاتے ہیں، جہاں ان کے آس پاس سفید کوٹوں کا سمندر ہسپتال کے اندر اور باہر مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے بھاگتا دوڑتا رہتا ہے۔
ہستپال میں دن کا پہلا حکم رجسٹریشن بک ہے۔ احمدی چاہتے ہیں کہ ہر ڈاکٹر سائن ان اور سائن آؤٹ کرے لیکن اکثر ڈاکٹر مصروفیت کی وجہ سے اس رسمی کارروائی کو بھول جاتے ہیں جو احمدی کے غصے کو ابھارنے کے لیے کافی ہے۔
دوسرا اہم حکم مسجد کے متعلق ہے۔ مزدور مسجد کی تعمیر کے لیے پیمائش لینے ہسپتال آتے ہیں اور احمدی انہیں احکامات دیتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم مسلمان ہیں اور ہمارے پاس 32 ارکان پر مشتمل عملہ ہے، جس کے لیے ہمیں ایک مسجد کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بہت سے فوائد ہیں۔ رشتہ دار رات بھر بیمار مریضوں کے ساتھ مسجد میں سو سکتے ہیں کیونکہ ہسپتال میں خاص طور پر سردیوں کے مہینوں میں اضافی بستروں کی کمی ہوتی ہے۔ ’اور یہی وہ چیز ہے جس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘
ڈاکٹر نجلہ قومی یہ سب کچھ پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی ہیں۔ انہیں بھی مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی اور وہ معمول کے مطابق زچگی وارڈ میں ادویات کی کمی کی شکایت کرتی رہتی ہیں۔
ان کے پاس حاملہ ماؤں کے لیے درد کی کوئی دوا نہیں، فارمیسی میں صرف اینالجیسک اور کچھ اینٹی بائیوٹکس کا ذخیرہ ہے۔ ’کیا یہ مسجد بنانے کا وقت ہے؟‘ وہ پوچھتی ہیں۔
تاہم احمدی کہتے ہیں کہ یہ غیر سرکاری تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کمیوں کو پورا کرنے کے لیے اپنے امدادی پروگرام بحال کرے اور جہاں تک مسجد کی بات ہے اس کے لیے رقم مقامی عطیات سے آئے گی۔
احمدی کے آنے سے ہسپتال میں دوسری بڑی تبدیلیاں بھی آ رہی ہیں۔ مردوں اور عورتوں کو الگ الگ وارڈز میں رہنے کو کہا گیا ہے اور خواتین ڈاکٹروں کو ایمرجنسی روم میں جانے سے منع کیا گیا ہے۔ احمدی نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ سر ڈھانپیں اور صرف خواتین مریضوں پر توجہ دیں۔
27 سالہ ڈاکٹر الٰہی ابراہیمی کہتی ہیں: ’ہم ہسپتال کے دوسری طرف نہیں جا سکتے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ عورت عورت ہے اور مرد مرد۔‘
قلت کے باعث ڈاکٹر مریضوں کو کہیں اور سے دوائیں ڈھونڈ کر واپس آنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ابراہیمی نے کہا کہ احمدی اکثر ان کے لکھے نسخوں کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔
‘وہ ڈاکٹر تو نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ یہاں کیوں ہیں۔ ہم ہر وقت اپنے آپ سے یہ سوال کرتے ہیں۔‘
احمدی ہسپتال میں مبینہ کرپشن کا الزام فوراً سابق حکومت کے تحت انتظامیہ پر عائد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی منافعے کی خاطر مارکیٹ میں فروخت کے لیے ایک گودام میں رکھے ہسپتال کے طبی آلات، فرنیچر اور دیگر چوری شدہ سامان ملنے پر پریشان ہیں۔
تاہم وہ اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے کہ اس کیس میں سابق انتظامیہ ملوث تھی۔ وہ یقینی بنانے کی کوشش کر ہے ہیں کہ اس قسم کے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں۔
ادھر ڈاکٹروں کو ناراض مریضوں کی طرف سے معمول کے مطابق نشانہ بنایا جاتا ہے، جن میں سے اکثر زندگی بچانے والی ادویات خریدنے کے متحمل نہیں ہوتے۔ ڈاکٹر ابراہیمی کہتی ہیں:’یہ سب ہمارے ساتھ لڑتے ہیں۔‘
رات کی شفٹ میں کام کرنے والے عملے کا کہنا ہے کہ انہیں کھانا نہیں ملتا جبکہ جنریٹر کا ایندھن تیزی سے ختم ہونے کے علاوہ دن میں گھنٹوں بجلی بند رہتی ہے۔
ڈاکٹر نجلہ کے پاس روشنی کے لیے ایک موبائل فون ہے جس کی مدد سے وہ غذائی قلت کے شکار بچوں کی جانچ کرنے کے لیے اپنا راستہ بنا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہاں ہر ڈاکٹر گہرے ڈپریشن میں ہے۔
اس کے برعکس احمدی کے خیال میں ان کے خواب آخرکار پورے ہو رہے ہیں کیونکہ ہسپتال میں کام کرنے سے وہ سب کچھ کر پا رہے ہیں جو غربت کی وجہ سے طبی تعلیم نہ ملنے کی وجہ سے رہ گیا تھا۔
ان کا دعویٰ ہے کہ پچھلے دو مہینوں میں انہوں نے انجکشن لگانے اور بنیادی دوا تجویز کرنے کا طریقہ سیکھ لیا ہے۔ ’میں مختلف حالات کے لیے درکار دوائیوں کے نام جانتا ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں ایک کار حادثے کے بعد وہ درد کش ادویات کا انجیکشن دینے کے لیے جائے وقوعہ پر تھے۔
احمدی اب بھی ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھتے ہیں اور صحت کے دیگر کارکنوں کی طرح، جن کی وہ نگرانی کرتے ہیں، پرامید ہیں کہ ہسپتال کے لیے کہیں نہ کہیں سے فنڈز مل جائیں گے۔