واشنگٹن(ہمگام نیوز)مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق
عالمی ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات پیر کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں شروع ہونے جا رہے ہیں۔
تاہم امریکہ کو اس معاہدے کو بچانے کا امکان کہیں کم نظر آتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران کی طرف سے معطل کیے گئے بالواسطہ مذاکرات پانچ ماہ کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوں گے جن میں بڑی طاقتیں بھی شرکت کریں گی۔
مذاکرات کی ناکامی کی صورت کو امریکہ کے پاس ایران کو ایٹم بم کی تیاری سے روکنے کے محدود آپشنز ہوں گے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں عالمی ایٹمی معاہدے سے الگ ہو کر ایران پر وہ پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں جو معاہدے کی شرائط کے تحت اٹھائی جا چکی تھیں۔
موجوہ صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کی طرف سے معاہدے کی اصل شرائط پر واپسی کی صورت میں معاہدہ بحال کرنا چاہتے ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بدھ کو کہا تھا کہ جلد کسی سمجھوتے پر پہنچنے اور اس پر عمل درآمد کی گنجائش موجود ہے۔
تاہم ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے راب میلی کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے تہران کا رویہ ایسا نہیں کہ اچھے نتائج کی توقع کی جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کی صورت میں امریکہ پر جلد واضح ہو جائے گا کہ آیا ایران صرف مزید وقت چاہتا ہے تاکہ اپنے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھا سکے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اس صورت میں امریکہ بے کار نہیں بیٹھے گا۔ ’ہم دوسرے اقدامات پر غورکریں گے۔ سفارتی یا دوسرے تاکہ ایران کی ایٹمی خواہشات کے معاملے سے نمٹا جا سکے۔‘
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق میلی نے ہفتے کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ پیر کو آسٹریا کے دارالحکومت میں بات چیت دوبارہ شروع ہونے کی صورت میں اس بات کا امکان ہے کہ اگر ایران نے ان مذاکرات کو اپنا ایٹمی پروگرام تیز کرنے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کیا تو امریکہ اور اس کے شراکت دار اس پر دباؤ ڈالیں گے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے پروگرام بی بی سی ساؤنڈز کو دیے گئے انٹرویو میں میلی نے کہا: ’اگر ایران کا یہ خیال ہے کہ وہ اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کے بعد واپس آ کر یہ کہتا ہے کہ وہ کچھ مزید بہتر چاہتا ہے تو سیدھی سی بات ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ ہم اور ہمارے شراکت دار اسے قبول نہیں کریں گے۔‘
میلی کے بقول: ’اگر ایران کی حکمت عملی یہ ہے کہ مذاکرات کو ایٹمی پروگرام کی رفتار بڑھانے کے لیے آڑ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جائے اور جیسا کہ میں کہتا ہوں کہ مذاکرت کو طول دیا جائے تو اس صورت میں ہمیں ایسا جواب دینا ہو گا جو ہماری ترجیح نہیں۔ اس موقعے پر ایران پر دباؤ بڑھا دیا جاتا ہے تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔‘