کراچی ( ہمگام نیوز) وائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے ساتھ بلوچ جبری لاپتہ راشد حسين ،عبدالحید زہری اور عبدالحفيظ زہری کے لواحقین بھی کیمپ میں بیٹھے رہے.
آج کیمپ میں اظہار یکجہتی کرنے والوں میں پی ٹی ایم آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر محمد شیر بادشاہ پشتون ماما حسیب اللہ جمال پشتین نے اظہار یکجہتی کی، وی بی ایم پی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے وفود سے مخاطب ہوکر کہا پشتونوں سندھیوں کی طرح بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں اپنے انتہاء کو پہنچ چکے ہیں بلوچستان کے اکثریتی آبادی واے علاقوں کو فوجی چھانیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے آئے روز فوجی کارروائیوں کے ذریعے آبادیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے فوجی بریت کی وجہ سے تیزی سے نقل مکانی کررہے ہیں بلوچ سرزمین پر بلوچ فرزندوں کی جبری اغوا اور مسخ شدہ لاشوں ملنااب کوئی نئی بات نہیں کیونکہ 72 سالوں سے یہ عمل تسلتسل کے ساتھ جاری ہے اور مردوں کے ساتھ خواتین کی بھی نیو جبری گمشدگی معمول بنتا جا رہا ہے ان سے انسانیت کے علمبرداروں اور اور اسلامی ریاست کے دعوے داروں کے منہ پرزور دار تماچہ ہے کوئی بھی اسلام یا کسی بھی مذہبی عقیدہ انسانیت کا احترام کرنے والوں ریاست ایسے غیر انسانی غیر اخلاقی حرکت کی اجازت نہیں دیتی ہے بلوچستان میں بلوچ فرزندوں کے ساتھ بلوچ خواتین کو بھی نشانہ بنانےکے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے مکران مشکے آواران سمیت دیگر علاقوں میں دوران آپریشن سیکورٹی فورسز کی فضائی اور ذہنی حملوں سے سپنکڑوں بلوچ خواتین اور بچے شہید ہوئے ہیں جبکہ دوران آپریشن خواتین اور بچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلوچستان میں غازی بلوچ نسل کشی میں شدت کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس میں بلوچ خواتین کی قتل عام اور جبری گمشدگیوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو تشویشناک امر ہے انہوں نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کے لوحقین پریس کلبوں کے سامنے روز مظاہرہ کرتے ہیں لیکن افسوس یہ بدقسمتی مائیں اور بہنیں بلوچ ہیں شاید انسانی حقوق کی تنظیموں اور نام نہاد آزاد صحافت والوں کے لیۓ بلوچ بحیثیت انسان کوئی اہمیت نہیں ہیں پہلے بلوچ مائیں اور بہنیں اپنے پیاروں کی گمشدگی کے کرب میں مبتلا تھے اپنے لخت جگروں کی مسخ شدہ لاشوں کو گود میں اٹھائے روتا اپنے آنسوں خشک کر دیتے ہیں أۓ روز پریس کلبوں کے سامنے اپنے فرزندوں کی تصایر اٹھائے رکھے ہیں لیکن شایداب بدقسمت ماؤں اور بہنو کی تقدیر بدل گئی اب خود ریاستی ٹارچر سیلوں میں قید ہونے لگے ہیں ۔